خوش بہت آتے ہیں مجھ کو راستے دشوار سے

خوش بہت آتے ہیں مجھ کو راستے دشوار سے
سر پھرا ہوں میں نہیں ڈرتا کسی دیوار سے


منزلوں کو پل میں پیچھے چھوڑتا جاتا ہوں میں
راستے بھی خوف کھاتے ہیں مری رفتار سے


خامشی سے صورتیں مٹ جائیں گی منظر سے کیا
کچھ نہیں کہنا کسی کو آئنہ بردار سے


خشک آنکھوں سے میں تکتا ہوں کنارے کی طرف
مجھ کو سیرابی بلاتی ہے سمندر پار سے


کیا مرا گھر بھی نہیں حق میں کہ میں تنہا رہوں
اتنی وحشت ہو رہی ہے کیوں در و دیوار سے


آسمانوں پر پڑاؤ ڈالنا تو ہے مجھے
گفتگو ہوتی رہے گی ثابت و سیار سے


تم بھی اب کچھ اور سوچو اس محبت کے سوا
میں بھی اب اکتا گیا ہوں ایک ہی آزار سے


میں شریفوں سے شرافت میں بھی آگے ہی رہا
میں نے چالاکی بھی سیکھی پائے کے عیار سے


رات بھر اس شہر میں وہ سانحے ہوتے ہیں زیبؔ
دل دہل اٹھتا ہے میرا صبح کے اخبار سے