خوش اداؤں سے بس اللہ بچائے دل کو
خوش اداؤں سے بس اللہ بچائے دل کو
کہ بنا لیتے ہیں اپنا یہ پرائے دل کو
عشق آساں نہیں اے جان بڑا مشکل ہے
جان دے دے مگر انساں نہ لگائے دل کو
یہ وہ مضطر ہے کہ ٹھہرا ہے نہ ٹھہرے گا کبھی
لاکھ مٹھی میں کوئی اپنے دبائے دل کو
نگۂ یار بھی ہے تاک میں انداز بھی ہے
ان لٹیروں سے بس اللہ بچائے دل کو
ہاتھ اس گوہر خوبی کے ہے بیڑا صابرؔ
بحر الفت میں ڈبائے یا ترائے دل کو