خدا کو آزمانا چاہتا ہوں
خدا کو آزمانا چاہتا ہوں
میں یہ دنیا جلانا چاہتا ہوں
کسی شاعر سے اس کی زندگی کے
میں سارے غم چرانا چاہتا ہوں
میں روح جونؔ کو جنت میں جا کر
گلے کس کر لگانا چاہتا ہوں
تری چھت پر ٹنگے سب پیرہن سے
تری خوشبو چرانا چاہتا ہوں
فقط مدہوش ہو کر کیا مزہ ہے
میں پی کر لڑکھڑانا چاہتا ہوں
گھڑی کے کانٹوں کو الٹا گھما کر
سمے کو میں بچانا چاہتا ہوں
شجر کو کاٹ کر میں خوب رویا
میں اپنا گھر بنانا چاہتا ہوں
نئے ہاتھوں میں میں پستک تھما کر
سبھی سرحد مٹانا چاہتا ہوں
اسے کہہ کر کی اب بھی ہے محبت
میں اس کا دل دکھانا چاہتا ہوں
کسی معصوم بچے کی طرح میں
خدا کو سب بتانا چاہتا ہوں