خود سے اتنا ہی آشنا ہوں میں

خود سے اتنا ہی آشنا ہوں میں
اک کہانی کی ابتدا ہوں میں


ہرن سونے کا تو کہاں ہوگا
اس کے کہنے پہ چل پڑا ہوں میں


سنگ نفرت کے تو میں سہہ لوں گا
صرف پھولوں سے ڈر رہا ہوں میں


چاند تارے گواہ ہیں اس کے
ساتھ ان کے جلا بجھا ہوں میں


پیار کے ایک بول کے بدلے
خود کو سستے میں بیچتا ہوں میں


حاصل زندگی کہو اس کو
خود کو کھو کر جو پا گیا ہوں میں


مجھ کو تاثیرؔ سنگسار کرو
جو نہ کہنا تھا کہہ گیا ہوں میں