خود کلامی

میرے رخسار پہ
جو ہلکی ہلکی جھریاں آ گئی ہیں
یقیناً اس کو بھی آ گئی ہوگی
زندگی کے سفر میں
عمر کے جس ڈھلان پر میں کھڑا ہوں
یقیناً وہ بھی وہیں آ گیا ہوگا


روز و شب کے مد و جزر
رنج و غم آنسو و خوشی
سرد گرم صبح و شام سے الجھتے ہوئے
چڑھتی عمر کا وہ چلبلا پن جو اب سنجیدگی میں ڈھل چکا ہے
عین ممکن ہے اس کے بھی مزاج کا حصہ ہوگا
ہاں یہ ممکن ہے
غیر متوقع طور پہ
سر راہ اگر تم کہیں
کبھی مل بھی جاؤ تو
تمہیں پہچاننا مشکل بھی ہوگا
مگر میرا دل مجھ سے کہہ رہا ہے
مجھے بہلا رہا ہے
تم ایک روز مجھ سے ملو گے
اور ضرور ملو گے