خود اپنی ذات کو مسمار کرکے

خود اپنی ذات کو مسمار کرکے
کہاں جاؤں سمندر پار کرکے


کھلی جب آنکھ کشتی جا چکی تھی
ملا کیا خواب سے بیدار کرکے


تسلی بھی نہیں دیتا ہے کوئی
مصیبت سے مجھے دو چار کرکے


مجھے جھکنا تھا آخر جھک گیا میں
گرا وہ خود مجھی پہ وار کرکے


بہت دعویٰ تھا تجھ سے دوستی کا
بہت پچھتا رہا ہوں پیار کرکے


نہیں جی پاؤ گے اب تم تبسمؔ
خود اپنی ذات کو بیدار کرکے