خود اپنے آپ سے روٹھا ہوا ہوں

خود اپنے آپ سے روٹھا ہوا ہوں
سمجھتے ہیں وہ میں ان سے خفا ہوں


حقائق سے چرا کر آنکھ اپنی
میں کن سایوں کے پیچھے بھاگتا ہوں


کوئی تو راستہ ہوگا بتانا
ترے دل تک پہنچنا چاہتا ہوں


بظاہر ہے ہنسی ہونٹوں پہ میرے
مگر اندر سے میں ٹوٹا ہوا ہوں


جہاں خود کو مقفل کر رکھا تھا
میں اس کمرے کی چابی کھو چکا ہوں


یہ کس نے مجھ کو بس میں کر لیا ہے
اشاروں پر میں کس کے چل رہا ہوں


اگرچہ حال ہے تاریک میرا
ستارہ آنے والے وقت کا ہوں


تپا ہوں آتش دوراں میں نایابؔ
تو اب جا کر کہیں کندن بنا ہوں