خرد نے لاکھ سر و برگ اجتناب کیا
خرد نے لاکھ سر و برگ اجتناب کیا
تری نگہ کو مرے دل نے کامیاب کیا
کرم بھی تو نے جو اے آسماں جناب کیا
سکون دل کو مبدل بہ اضطراب کیا
نثار اس نگہ دل نواز کے جس نے
اسیر درد کیا وقف اضطراب کیا
مجھے تری نگہ انتخاب پر ہے یہ رشک
جہان بھر سے مجھے اس نے انتخاب کیا
دل حزیں گلۂ جور اس سے جس نے تجھے
حریم عشق و محبت میں باریاب کیا
کرم نہیں نہ سہی جور ناروا ہی سہی
یہ کم نہیں کہ مجھے تو نے انتخاب کیا
نگاہ شوق کی گستاخیاں معاذ اللہ
کسے حریم تصور میں بے نقاب کیا
رشیدؔ عشق کسی حال میں گناہ نہیں
چلو گناہ سہی اب تو ارتکاب کیا