کھنچ کے وہ اور طرحدار نظر آتے ہیں
کھنچ کے وہ اور طرحدار نظر آتے ہیں
بل جو ابرو پہ ہیں تلوار نظر آتے ہیں
پھر مرے حال پہ ہے چشم عنایت ان کی
پھر وہ کچھ در پۂ آزار نظر آتے ہیں
کس نے محفل میں یہ چہرے سے اٹھائی ہے نقاب
آئنے نقش بہ دیوار نظر آتے ہیں
قصۂ دار و رسن ختم نہ فرمائیں حضور
کچھ ابھی حق کے پرستار نظر آتے ہیں
اک ہمیں لطف مسیحائی کے مارے تو نہیں
اچھے اچھے ترے بیمار نظر آتے ہیں
خیر ہو ساقئ نوخیز کہ محفل میں تری
آج کچھ صاحب دستار نظر آتے ہیں
بات سچی کہیں کمبخت نے کہہ دی شاید
لوگ فاروقؔ سے بیزار نظر آتے ہیں