خیال و خواب کی دنیا نہیں سنجونے کا
خیال و خواب کی دنیا نہیں سنجونے کا
ادھار مانگ کے رسوا نہ اب کے ہونے کا
کوئی تو آئے گا سرخی کا عیب بتلانے
لہو کے داغ بھی چہرے سے اب نہ دھونے کا
محبتوں میں محبت کی کوئی آس نہ رکھ
یہ کاروبار تو پانے کا ہے نہ کھونے کا
بچھڑتے وقت جو تلقین بھی نہ کر پایا
پھر اس کی یاد میں آنچل نہیں بھگونے کا
لو دیکھ لو وہی ساحل پہ آ کے ڈوبے ہیں
جنہیں تھا شوق بہت کشتیاں ڈبونے کا
وہ ہم کہ نیندوں کو آنکھوں سے دور کر ڈالا
تمہیں خیال رہا اوڑھنے بچھونے کا