خیال و خواب کے دریا کے پار اثر بھی گئے
خیال و خواب کے دریا کے پار اثر بھی گئے
جدھر ہمیں نہیں جانا تھا ہم ادھر بھی گئے
بدن سے لپٹے رہے بے زمینیوں کے عذاب
تلاش رزق کی خاطر جدھر جدھر بھی گئے
جو چاہتے تھے ستاروں سے تیری مانگ بھرے
انہیں تلاش نہ کر اب وہ لوگ مر بھی گئے
اب ان کی یادوں سے آنکھوں کو اور سرخ نہ کر
وہ حادثے تو زمانہ ہوا گزر بھی گئے
وہ سارے خواب زدہ لوگ اپنے خواب کے ساتھ
سنورتے رہنے کے امکان میں بکھر بھی گئے
نظر میں رنگ تھے آرائش مکاں کے مگر
ہوا کچھ ایسی چلی گھر کے بام و در بھی گئے