خلا سے کبریا تک کا سفر تھا اور ہم تھے

خلا سے کبریا تک کا سفر تھا اور ہم تھے
تھرکتا چاک تھا اک کوزہ گر تھا اور ہم تھے


تمہیں کو دیکھتے گزرے تھے اک سچائی سے ہم
جہاں آشوب ہی حد نظر تھا اور ہم تھے


بڑی مشکل سے کی دریافت ہم نے رغبت غم
پھر اس کے بعد تو آساں سفر تھا اور ہم تھے


گزاری عمر ہم نے آبیاری میں کسی کی
وہ اپنا ایک کار بے ثمر تھا اور ہم تھے


گڑھی ہو نال جس در پہ بلاتی ہے وہ مٹی
یہی ہونا تھا آخر پھر وہ در تھا اور ہم تھے