ڈھونڈھتا ہوں میں کسی کو نظر آتا ہے کوئی
ڈھونڈھتا ہوں میں کسی کو نظر آتا ہے کوئی
دید میں کیوں نہیں آتا اگر آتا ہے کوئی
راستے میں کسی سائے کا دکھائی دینا
بام و در کا یہ سمجھنا کہ گھر آتا ہے کوئی
مجھ پہ گرتی ہوئی یہ دھوپ بھی اب تھک گئی ہے
میں بھی اس طاق میں ہوں کب شجر آتا ہے کوئی
کیا تناقض ہے کہ آنکھوں سے نہ ہو کر داخل
دل میں پانی کی طرح اب کے در آتا ہے کوئی
میرے حق میں جو دعا کن ہیں تیرے ہاتھ تو سن
پڑھ وظیفہ بھی ذرا دیر اگر آتا ہے کوئی
جب سے اس دشت میں آیا ہوں اسی سوچ میں ہوں
کہ بیابان میں کیا سوچ کر آتا ہے کوئی
وہ میری راہ جنوں میں یوں نمودار ہوا
جیوں کسی تیر کے رستے میں سر آتا ہے کوئی