ہزاروں درد یکجا ہو کے آنکھیں دھو رہے ہیں

ہزاروں درد یکجا ہو کے آنکھیں دھو رہے ہیں
یہ رت گریہ کی ہے ہر سمت آنسو ہو رہے ہیں


ہوائے خواب خوش نے تھی ہماری نیند توڑی
سو اک گہری اداسی اوڑھ لی ہے سو رہے ہیں


ہمیں رکھنے تھے اپنے نقش پا بھی سرخیوں میں
سو اپنی راہ میں کچھ اور کانٹے بو رہے ہیں


بڑی خواہش تھی ہم کو قیس ہونے کی سو ہو گئے
نہ جانے کب سے سر پر ایک صحرا ڈھو رہے ہیں


کہانی بھی تمہاری اور اہم کردار بھی تم
ہمارا ذکر کیا ہم جو رہے ہیں سو رہے ہیں


اچانک خامشی سے بھر گئے ہیں سب وگرنہ
زمانے تک ہمارے زخم قصہ گو رہے ہیں


عجب سی بد حواسی ہے ہمیں کوئی بتائے
ہمیں کیا ڈھونڈھنا ہے اور ہم کیا کھو رہے ہیں


ذرا سنبھلو تمہاری وحشتوں کے ذکر سلمانؔ
جہاں ہونے نہیں تھے اب وہاں بھی ہو رہے ہیں