اک عجب سی دھندھ میں اب سر بسر لپٹا ہوں میں

اک عجب سی دھندھ میں اب سر بسر لپٹا ہوں میں
کھو گیا ہوں یوں کہ خود کو بھی کہاں دکھتا ہوں میں


ڈھونڈھتا ہوں اک شناسا مجمع اغیار میں
اجنبی چہرے بھی پہروں دیکھتا رہتا ہوں میں


شہر کی شب پر بپا ہیں جگمگاتی لائٹیں
ہائے راتوں کو اندھیرا ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں


یہ مرا کار جنوں ہے یا مجاز جستجو
رات بھر سڑکوں پہ یوں ہی گھومتا پھرتا ہوں میں


چشم ظاہر کا مجھے پہچاننا ممکن کہاں
دل کی آنکھوں سے مجھے دیکھو تو جانو کیا ہوں میں


روشنی چاروں طرف ہے اور میں سایۂ رقص کن
گھٹ گیا جو اس طرف تو اس طرف بڑھتا ہوں میں


فاصلہ کچھ بڑھ گیا میرا مری پرچھائی سے
یہ جو تیری روشنی سے دور سا رہتا ہوں میں


سب رقم ہی کر دیا تو دل میں باقی کیا رہے
کچھ خیال اپنے ہی اندر باندھ کر رکھتا ہوں میں