خبر ہی نہیں کیسے انگڑائی لے کر نگاہیں اٹھائے کہ ساغر اٹھائے
خبر ہی نہیں کیسے انگڑائی لے کر نگاہیں اٹھائے کہ ساغر اٹھائے
کچھ ایسا نشہ چھا گیا زندگی پر سنبھلتے سنبھلتے قدم ڈگمگائے
بنے حسن والے سراپا قیامت جوانی جب آئی تو انداز آئے
گرائی کبھی شوخ نظروں سے بجلی کبھی شرم آئی کبھی مسکرائے
کوئی جا کے میرے مسیحا سے کہہ دے خدا کے لئے آگ دل کی بجھا دے
محبت کے شعلے بھڑکنے لگے ہیں کہیں خرمن زندگی جل نہ جائے
ہو ان کا دیدار قسمت سے جب بھی ادا ہو گئی ہے نماز محبت
نکل آئے جب بھی وہ پردے سے باہر نگاہوں نے جھک جھک کے سجدے سنائے
سنائے کسے اپنی غم کی کہانی کدھر جائے وہ تیری محفل سے اٹھ کر
نظر نے تری جس کا دل لے لیا ہو وہ قسمت کا مارا کہاں چین پائے
چمن والے اچھی طرح جانتے ہیں چمن میں جو قربانیاں ہم نے دی ہیں
چمن سے اندھیرے مٹانے کی خاطر نشیمن بنائے نشیمن جلائے
نہ ساقی نہ بوتل نہ ہے رقص ساغر اداسی ہے چھائی ہوئی انجمن پر
فنا سازوں دل سے غزل ایسی چھیڑو فناؔ ناچ اٹھے زندگی جھوم جائے