یوں نہ آنکھیں بدل مجھ سے میرے صنم میں ترے در سے اٹھ کر کہاں جاؤں گا
یوں نہ آنکھیں بدل مجھ سے میرے صنم میں ترے در سے اٹھ کر کہاں جاؤں گا
تو اگر مجھ سے دامن بچاتا رہا سر ترے در سے ٹکرا کے مر جاؤں گا
ہو چکی ہیں زمانے میں رسوائیاں اب نگاہیں چرانے سے کیا فائدہ
تو بھلا دے مجھے اپنے دل سے مگر میں جہاں جاؤں گا تیرا کہلاؤں گا
چاند تاروں سے نظریں ملائے ہوئے کاٹ دوں گا شب ہجر میں اس طرح
جب بھی فرقت کے لمحے ستم ڈھائیں گے میں تری یاد سے دل کو بہلاؤں گا
اپنے دل پہ سہوں گا محبت کے غم تجھ کو بدنام ہونے نہ دوں گا کبھی
یہ مرا ظرف ہے یہ مری بات ہے تجھ پہ الزام آیا تو مر جاؤں گا
تیری خاطر سلیقے سے سجدہ کروں ہے یہی آرزو ہے یہی جستجو
مجھ کو مل جائے گر تیرا نقش قدم میں عبادت میں معراج پا جاؤں گا
پیار تجھ سے کیا ہے خدا کی قسم یہ تعلق کبھی ٹوٹ سکتا نہیں
اپنی ہستی مٹا کر ترے عشق میں تیرے جلووں کا آئینہ بن جاؤں گا
آج تم کو مرے دل سے نسبت نہیں میں فناؔ ہوں ذرا تم بھی یہ سوچ لو
کل اگر تم مجھے ڈھونڈنے آؤ گے میں ستاروں کی دنیا میں کھو جاؤں گا
جذبۂ عشق میرا سلامت رہے موت آئے گی خود لے کے جام بقا
اے فناؔ ان کی الفت میں ہو کے فناؔ ہر قدم پر نئی زندگی پاؤں گا