خاموش ہیں خاموش مگر دیکھ رہے ہیں
خاموش ہیں خاموش مگر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
تاریک فضاؤ میں بھی جگنو کوئی چمکا
آج اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ رہے ہیں
کیا بات ہے کیا راز بنے کیا ہو گیا آخر
کیوں آپ کو با دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں
خود موت سے ٹکرانے کا جن کو ہے سلیقہ
مر کے بھی وہ اپنے کو امر دیکھ رہے ہیں
دیکھا نہ ہمیں مڑ کے بھی اک بار کسی نے
ہم شوق سے تا حد نظر دیکھ رہے ہیں
کیا جانئے اس راہ سے کب ان کا گزر ہو
مدت سے مگر راہ گزر دیکھ رہے ہیں