جب بھی منزل ترے دامن میں سمٹ جاتی ہے
جب بھی منزل ترے دامن میں سمٹ جاتی ہے
زندگی خود کو بھی گمنام نظر آتی ہے
جیسے سورج کی شعاعوں میں کوئی چاند چھپے
کون روشن ہے کہ مشعل مری مٹ جاتی ہے
ایک ساحل ہوں تو کیا میرا کوئی درد نہیں
صرف کشتی پہ ہی کیوں سب کی نظر جاتی ہے
ذہن کر بیٹھا تھا کل شکوہ شکایت دل سے
میری دنیا میں بھی کیوں تیری سنی جاتی ہے
ہو نہ آمد تری جس شب تو وہ شب شب ہی نہیں
نیند اس رات بغاوت پہ اتر آتی ہے