کون کہتا ہے کہ یہ شوخیٔ بیداد نہیں
کون کہتا ہے کہ یہ شوخیٔ بیداد نہیں
تم نے ملنے کو کہا بھی تھا کہیں یاد نہیں
ہائے اس روز کا ہر واقعہ تم بھول گئے
ہائے کیا میرا تڑپنا بھی تمہیں یاد نہیں
میں خطا وار اگر عہد شکن پھر سے کہوں
تم اسی ناز سے کہہ دو کہ ہمیں یاد نہیں
اف یہ اظہار تغافل کی ادائے دلکش
پھر ذرا کہئے کہ ہاں کہہ تو دیا یاد نہیں
یہ طرحداریٔ اظہار تغافل اوں ہوں
ہنس کے منہ پھیر کے شرما کے کہو یاد نہیں
اتنا تو یاد ہے اک وعدہ کیا تھا لیکن
ہم نے کیا وعدہ کیا تھا ہمیں یہ یاد نہیں
ذکر بسملؔ پہ وہ فرمانے لگے جھنجھلا کر
ہوگا کوئی چلو جانے دو ہمیں یاد نہیں