فطرت احباب سے محرم رہے
فطرت احباب سے محرم رہے
خوش رہے حالانکہ صرف غم رہے
جب تک اس دار فنا میں ہم رہے
مبتلائے گردش پیہم رہے
ہم بنے ہیں تختۂ مشق ستم
امتحاں گاہ وفا میں ہم رہے
فصل گل میں بھی رہا خوف خزاں
ہم بہ ہر حالت اسیر غم رہے
گل میں بھی آتی رہی بوئے تراب
حاصل دوراں سے ہم محرم رہے
گردشوں نے تلخ کر دی زندگی
موت سے ہم پھر بھی نامحرم رہے
ان کے جور و ظلم سے آئی نہ موت
ہائے یہ الطاف بھی تو کم رہے
کون سی بسملؔ میں ایسی بات تھی
مدتوں اس موت پہ ماتم رہے