جانتا ہوں کہ سکوں قسمت انساں میں نہیں

جانتا ہوں کہ سکوں قسمت انساں میں نہیں
میں تمہیں اپنا بنا لوں مرے امکاں میں نہیں


فکر گلچیں غم صیاد اور اندیشۂ برق
جو سکوں مجھ کو قفس میں ہے گلستاں میں نہیں


میں وہ برباد ازل ہوں کہ نشیمن تو کیا
میری تقدیر کے تنکے بھی گلستاں میں نہیں


کیوں کھٹکتی ہے زمانہ کو کسی کی لغزش
داغ لالے میں نہیں یا مہ تاباں میں نہیں


جس کی تعمیر میں احساس شکست گل ہو
میری وحشت کا علاج ایسے گلستاں میں نہیں


سجدے کرتا ہوں بہ انداز جنوں رو رو کر
حسب معمول عبادت مرے ایماں میں نہیں


کج روی مصلحت حسن ہے ورنہ بسملؔ
ان میں جو بات ہے وہ بات ہر انساں میں نہیں