جو خوش نصیب تیرے عشق میں خراب ہوئے

جو خوش نصیب تیرے عشق میں خراب ہوئے
بہ اعتبار حقیقت وہ کامیاب ہوئے


غم دوام کے اسرار بے نقاب ہوئے
یہ چند جرعے کہاں تک اثر مآب ہوئے


مری نگاہ میں وہ جلوے سحر کار نہیں
جو جلوے عام نگاہوں میں بے نقاب ہوئے


چلا میں ان کا تصور کئے ہوئے جس وقت
جو ذرے راہ میں آئے وہ آفتاب ہوئے


تری قرابت انہیں بھی کہاں میسر ہے
ترے جمال کدے میں جو باریاب ہوئے


کرشمہ سازیٔ جذبات عشق ارے توبہ
حقیر ذرے ترے حسن کا جواب ہوئے


ادھر بنایا ہے قصر تصورات جمیل
ادھر ہم ان کے لیے خانماں خراب ہوئے


یہ حادثات محبت ارے خدا کی پناہ
تمہاری بزم میں بسملؔ بھی باریاب ہوئے