کشتیوں سے اتر نہ جائیں کہیں
کشتیوں سے اتر نہ جائیں کہیں
لوگ طوفان سے ڈر نہ جائیں کہیں
زندگی ہے کہ آگ کا دریا
شدت غم سے مر نہ جائیں کہیں
جن کو ظلمت نے باندھ رکھا ہے
چاندنی میں بکھر نہ جائیں کہیں
روک اشکوں کو اب سر مژگاں
یہ بھی حد سے گزر نہ جائیں کہیں
آؤ لکھ لیں لہو سے عہد وفا
قول سے ہم مکر نہ جائیں کہیں
ان کی یادوں کے زخم اے عالمؔ
وقت سے پہلے بھر نہ جائیں کہیں