کریہہ چہرے پہ رنگیں نقاب ہے گویا
کریہہ چہرے پہ رنگیں نقاب ہے گویا
فریب زندگی آج اک عذاب ہے گویا
کھلی ہوئی غم دل کی کتاب ہے گویا
اک آئینہ مری چشم پر آب ہے گویا
بنے ہیں چہرے نشان سوال جسموں پر
شکست و ریخت ہی ان کا جواب ہے گویا
نہال درد کی شاخوں میں پھول کھلنے لگے
خیال یار بھی فصل گلاب ہے گویا
مجھے ہے برقؔ فراوانیٔ الم حاصل
یہ رزق دل کو بغیر حساب ہے گویا