فسانہ ختم ہوتا ہے
مسلا ہوا بستر پوری کہانی تھا۔
ثاقب نے ٹہلتے ٹہلتے سوچا۔ مزے کا افسانہ بن سکتا ہے اس پر۔ بے ترتیب چادر اور بکھرے ہوئے تکیے اور فضا میں پھیلی ایک وحشی بُو۔ اولڈ ماسٹرز میں سے کوئی لکھتا تو کمال کردیتا۔ ابو الفضل صدیقی۔ یا سیّد رفیق حسین۔ ایک کمرے کی چھوٹی چھوٹی جزئیات سے مرتب ہونے والی کہانی۔
باتھ روم کے شاور سے گرتے پانی کی آواز آرہی تھی۔ اور لالہ رُخ کے گنگنانے کی۔
ثاقب مسکرایا۔ افسانے میں پانی کی آواز کو بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔ صرف کمرے کی بے ترتیبی اور شاور کی تیز پھوار کی آواز۔ کوئی کردار نہیں۔ کوئی ڈائیلاگ نہیں۔
پھر ثاقب کی نظر بستر کے سرہانے رکھی تصویر پر پڑی اور اس کی مسکراہٹ دم توڑ گئی۔ اس چھوٹے سے فلیٹ میں یہ تصویر وہ واحد چیز تھی جس سے ثاقب کو نفرت تھی۔
تصویر شاید کسی تقریب کی تھی۔ لالہ رُخ مسکرا رہی تھی۔ یوں، جیسے بس ابھی کھلکھلا کر ہنس پڑے گی اور ہنستی ہی چلی جائے گی۔ اور لالہ رُخ کے ساتھ کھڑا نوجوان بھی مسکرارہا تھا۔ اونچا، لمبا قد۔ سنہرے فریم کا نازک چشمہ۔ چہرے پر صحت مندی کا اور تعلیم کا اور کامیابی کا اعتماد۔
عام طور پر جب وہ آتا تھا تو لالہ رُخ اس تصویر کو پلٹ کر رکھ دیتی تھی۔ ثاقب نے کبھی کہا نہیں تھا مگر لالہ رُخ جانتی تھی۔ وہ سب ان کہی باتیں سن لیتی تھی۔ سب پوشیدہ خیالات جان لیتی تھی۔ ان تین ماہ کے دوران ثاقب نے رفتہ رفتہ حیران ہونا بھی چھوڑ دیا تھا۔ آدمی کتنی بار حیران ہوسکتا ہے۔
ثاقب نے تصویر پر پھر نگاہ ڈالی اور اپنے دل میں تلخی کو کسی تاریک سائے کی طرح پھیلتے، بڑھتے محسوس کیا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور سرہانے جاکر تصویر کو پلٹ کر رکھ دیا۔
کرسی پر بیٹھ کر اس نے پورے منظر کو پھر دیکھا۔ شکن آلود چادر اور بے ترتیب تکیے اور قالین پر لالہ رُخ کی سینڈلز۔ اطمینان کی ایک لہر اسے اپنے دل میں اترتی محسوس ہوئی۔
شاور سے گرتے پانی کی آواز بند ہوگئی۔
دروازہ کھلا اور لالہ رُخ نے جھانک کر کہا۔ ’’سنو۔ چائے کے لیے پانی تو رکھ دو چولہے پر۔‘‘
بس لمحہ بھر کو اس کا چہرہ نظر آیا۔ گیلے بال اور دَمکتا چہرہ۔ پھر دروازہ دَھڑ سے بند ہوگیا۔
کچن کی طرف جاتے جاتے ثاقب ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے رُک گیا۔
اس نے اپنے عکس پر ایک نظر ڈالی۔ وہی جانے پہچانے خال وخد۔ سیاہ بال، جو اب اتنے گھنے نہیں رہے تھے اور جن میں تیزی سے ابھرتی سفیدی کو دنیا سے پوشیدہ رکھنے کے لیے ہر ماہ دو گھنٹے ضائع کرنے پڑتے تھے۔ اور آنکھیں، جن میں گزر جانے والے چالیس طویل برسوں کی تھکن تھی۔ پندرہ برس پہلے یہ چہرہ بھی نوجوانی کے جوش سے تمتماتا تھا۔ بالکل اسی تصویر والے نوجوان کی طرح۔ کَسی ہوئی جلد اور کھلنڈری مسکراہٹ اور انگ انگ سے پھوٹتی توانائی۔ مگر یہ سب پرانی باتیں تھیں۔ ابھی ایک تلخ شادی اور تلخ تر طلاق کے سانحے رونما نہ ہوئے تھے اور ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں گروپ کری ایٹو ڈائریکٹر کا عہدہ نہ ملا تھا۔ ابھی افسانہ نگار کی حیثیت سے شہرت نہ ملی تھی اور ایک تنہا زندگی کی بے فکری اور اذیت کا باب نہ کھلا تھا۔ ابھی زندگی کی پیچیدگیاں سامنے نہیں آئی تھیں اور چونکا دینے والی باتوں پر دل نے بیزاری سے ’’توپھر؟‘‘ کہنا شروع نہیں کیا تھا اور ہر شے کی بے مقصدیت نظروں پر عیاں نہیں ہوئی تھی۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ چونک کر مڑا۔
گیلے بالوں کو تولیے میں لپیٹتی لالہ رُخ نے کہا۔ ’’مجھے یقین تھا کہ تم نے چولہے پر پانی نہیں رکھا ہوگا۔‘‘
ثاقب خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
وہ تروتازہ نظر آرہی تھی۔ جیسے تیز بارش کے بعد ہوا کے جھونکوں میں کھلکھلاتا پھول۔
’’تمہاری ہر بات میں یقین بہت ہوتا ہے۔‘‘ ثاقب نے کہا۔
’’کوئی نہ کوئی وجہ بھی ہوتی ہے اس کی ۔‘‘ لالہ رُخ مسکرائی۔ ’’میں نے کہیں پڑھا تھا۔ مرد بستر پر جانے سے پہلے ہر بات پوری توجہ سے سنتا ہے۔ لیکن بستر سے اٹھنے کے بعد نہیں۔‘‘
ثاقب کچھ کہے بغیر کچن کی طرف چلا گیا۔ لالہ رُخ کا قہقہہ اس کا پیچھا کرتا رہا۔
وہ چائے بنا کر لایا تو لالہ رُخ اسی بے مقصد کام میں الجھی ہوئی تھی۔ آرائش کے بے مقصد کام میں۔ ثاقب نے اسے سمجھایا تھا کہ عمر کے ایک حصّے میں خوبصورتی کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ مگر لالہ رُخ کے پاس اپنی دلیلیں تھیں۔ عورت کی سائیکی۔ صدیوں پرانے زریں اصول۔ ایک سے بڑھ کر ایک بکواس منطق۔
ثاقب نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ایک شعر سنانے کو دل چاہتا ہے۔۔۔‘‘
لالہ رُخ نے میک اپ باکس میں کچھ ڈھونڈتے ہوئے کہا۔ ’’خدا کے واسطے، میں اور اندیشہ ہائے دور دراز والا مت سنانا۔ یہ پنسل کہاں مر گئی ہے۔؟‘‘
کبھی کبھی ثاقب کو یوں لگتا تھا، وہ کسی تاریک ہال میں بیٹھا کوئی فلم دیکھ رہا ہے۔ قدم قدم پر راہ بدلتی کہانی۔ لمحہ لمحہ حیران کرنے والی کوئی فینٹسی۔ ایک ناقابل یقین دنیا، جو تھوڑی دیر کے لیے قابل یقین بن جاتی ہے۔ ایک جادونگری، جو کچھ دیر کو روح کے اندر اترجاتی ہے اور اپنا بنا لیتی ہے۔ لالہ رُخ اس کی زندگی میں کیسے آئی تھی، ثاقب کو کچھ یاد نہ تھا۔ شاید وہ یاد کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ بالکل اسی طرح ، جیسے وہ یہ نہیں سوچنا چاہتا تھا کہ کسی بھی دن وہ اس کی زندگی سے چلی جائے گی۔ مہرباں تاریکی میں بیٹھا شخص، جو کسی فینٹسی سے ہم آغوش ہو، ایک جادونگری میں چلتا جارہا ہو، کب سوچتا ہے کہ ابھی ہال میں روشنی ہو جائے گی اور یہ سارا طلسم ٹوٹ جائے گا۔
ہئیرڈرائر کی مشینی گھر گھراہٹ اچانک پورے کمرے میں گونجنے لگی۔
وہ ایک سرخ برش سے بال سلجھا رہی تھی۔ ڈرائر کی تیز ہوا سے اس کے گھنے، بھورے بالوں میں لہریں سی پیدا ہوتی تھیں اور پھر برش ان کے درمیان پھسلتا گزرجاتا تھا۔ پھر لہریں۔ پھر برش کا سفر۔ ایک میکانکی آہنگ، جس کے دوران اس کا سر ہر بار ایک جانب جھکتا تھا اور پھر سیدھا ہوجاتا تھا۔ پھر ثاقب کی نظر آئینے پر پڑی۔ لالہ رُخ کی نظریں اسی پر جمی ہوئی تھیں۔ ثاقب کو یوں لگا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔
ڈرائر کی کرخت آواز بالآخر بند ہوگئی۔
لالہ رُخ نے بستر کی چادر ٹھیک کی، تکیوں کو اپنی جگہ پر رکھا اور پھر ثاقب کے پاس ہی قالین پر بیٹھ کر اس نے چائے کا کپ اٹھالیا۔
ثاقب نے صوفے کو تھپتھپایا۔ ’’یہاں آجاؤ۔‘‘
’’نہیں۔ یہیں ٹھیک ہے۔‘‘ لالہ رُخ نے چائے کا گھونٹ بھرا۔ ’’یہ بتاؤ، اتنے غور سے کیوں دیکھ رہے تھے مجھے۔؟ ابھی جب میں بال بنارہی تھی۔‘‘
ثاقب کو یاد آیا، شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کو بھی ایسے ہی وارفتگی سے دیکھتا تھا۔ دو ہفتے بعد ہی اس نے کہہ دیا تھا، یہ آپ اس طرح کیوں گھورتے رہتے ہیں مجھے، اچھا نہیں لگتا۔ اور رفتہ رفتہ ثاقب کو پتا چلا تھا کہ اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ہاتھ تھامنا بھی نہیں۔ قریب آنا بھی نہیں۔ ڈیڑھ دو ماہ میں ہی فہرست بہت طویل ہوگئی تھی۔ افسانہ نگاری، مہدی حسن، برسوں پرانے دوست، اردو اخبارات، کم تنخواہ۔۔۔ ثاقب کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔
لالہ رُخ نے کہا۔ ’’انگریزی میں کہتے ہیں، اے پینی فاریؤر تھاٹس۔ کیا سوچ رہے تھے۔؟‘‘
ثاقب نے سرجھٹک کر کہا۔ ’’بوڑھا آدمی کیا سوچتا ہے۔؟ گزری ہوئی زندگی۔ بیتی ہوئی تلخیاں۔‘‘
’’بوڑھے تو خیر نہیں ہوتم۔‘‘ وہ ایک ادا سے مسکرائی۔ پھر اس نے آنکھیں سکیڑ کر، ماتھے پر بل ڈال کر کہا۔ ’’دیکھ مجھے رہے تھے اور سوچ اپنی بیوی کے بارے میں رہے تھے۔ شرم آنی چاہئیے تمہیں۔‘‘
’’گیارہ ماہ تین دن گزارے میں نے اس کے ساتھ۔‘‘ ثاقب نے سرجھکا لیا۔ ’’عذاب جیسے دن۔‘‘
لالہ رُخ قالین پر اس کے قریب کھسک آئی اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’میں نے انہی دنوں نفرت کرنا سیکھا۔‘‘ ثاقب نے کہا۔ ’’اور تنہا رہنا۔ اور بے بسی کے عالم میں آنسو بہائے بغیر رونا اور ایک خوشگوار زندگی بسر کرنے کا ناٹک کرنا۔‘‘
’’اور بھی بہت کچھ سیکھا تم نے۔‘‘ لالہ رُخ نے آہستہ سے کہا۔ ’’دل میں اتر جانے والی کہانی لکھنا۔ تیکھا جملہ ترتیب دینا۔ تمہیں پتا ہے، تم نے اپنے چار افسانوں میں نفرت کو تفصیل سے ڈِسکس کیا ہے۔؟‘‘
ثاقب حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ محض بائیس سال کی تھی۔ اٹھارہ برس چھوٹی تھی اس سے۔ مگر اس کے پاس نگاہ تھی جس کے سہارے وہ بہت کچھ دیکھ لیتی تھی اور تجزیہ کرنے کی کوئی ماورائی صلاحیت تھی اور بے پناہ اعتماد تھا۔ دوسری ملاقات میں اس نے ثاقب کو تم کہنا شروع کردیا تھا۔ چوتھی ملاقات میں وہ اسے اپنے فلیٹ میں لے آئی تھی جہاں وہ اپنے سیالکوٹ میں رہنے والے صنعتکار باپ کی اجازت سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے مقیم تھی۔
’’بدنصیبی محض بد نصیبی نہیں ہوتی۔‘‘ لالہ رُخ نے کہا۔ ’’اس کے بطن سے خوش قسمتی کی ہزار شاخیں پھوٹتی ہیں۔ جس آدمی کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے، وہ خود کو دنیا کا بدنصیب ترین انسان سمجھتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ ایک نئے سفر کا آغاز بھی ہوسکتا ہے، کسی اطمینان بھری، خوشحال زندگی کا پیغام بھی۔۔۔‘‘
ثاقب نے اثبات میں سرہلایا۔
’’شادی کا تلخ تجربہ تمہارے لیے وہی بدنصیبی تھا۔‘‘ لالہ رُخ نے کہا۔ ’’دماغ میں کسی نئے کیمیکل کو ٹریگر کرنے والا ایجنٹ۔ سینکڑوں میل کی گہرائی میں چھپا وہ دباؤ جس کی بدولت ایک روز آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے۔ تمہیں تو شکریہ کا خط لکھنا چاہئیے اپنی سابقہ بیوی کے نام۔ اس نے تمہیں تالاب میں دھکا دیا اور تم تیراک بن گئے۔‘‘
’’میں تمہارے نام بھی ایک شکریہ کا خط لکھوں گا۔‘‘ ثاقب نے کہا۔ ’’تم نے بزنس ایڈمنسٹریشن جیسے فضول مضمون کا انتخاب کیا اور کسی تخلیقی شعبہ کا رُخ نہ کیا۔‘‘
لالہ رُخ مسکرائی۔ ’’اگر تم میرا مذاق نہ اڑانے کا وعدہ کرو تو ایک بات بتاؤں۔‘‘
ثاقب نے اس کی آنکھوں میں ڈولتی بے یقینی کو اور تذبذب کو دیکھا اور کہا۔ ’’تم افسانے لکھتی رہی ہو۔ رائٹ۔ ؟‘‘
لالہ رُح نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپالیا اور ہنستے ہنستے بے حال ہوگئی۔
’’کہاں ہیں وہ افسانے۔۔۔؟‘‘ ثاقب نے پوچھا۔
لالہ رُخ نے ہنسی پر قابو پالیا تھا مگر اپنے چہرے کو بدستور چھپارکھا تھا۔
’’میرا خیال ہے، پھاڑ دیئے ہوں گے۔‘‘ ثاقب نے سوچتے ہوئے کہا۔
لالہ رُخ نے ایک جھٹکے سے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹائے۔ ’’اوہ گاڈ۔‘‘ اس کے چہرے پر شرم کی سرخی تھی اور آنکھوں میں حیرت۔
ثاقب کے دل میں دُکھ کی ایک لہر اٹھی۔ دُکھ، کہ یہ کمرہ اور یہ وقت اور یہ باتیں گزرجانے کے لیے تھیں۔ دُکھ، کہ قالین پر بیٹھی یہ لڑکی اور اس کے وجود سے پھوٹتی روشنی اور اس کی آنکھوں سے جھانکتی وارفتگی خیال و خواب ہو جانے کے لیے تھی۔ تین ماہ پہلے جب وہ ملی تھی، ثاقب کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ اگلے چند دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ اسے حیرت ضرورت ہوئی تھی کہ اس لڑکی نے اس کے سب افسانے پڑھ رکھے تھے۔ کراچی اور لاہور اور اسلام آباد کے ادبی پرچوں میں چودہ پندرہ برس کے دوران شائع ہونے والے افسانے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس لڑکی کے دل میں افسانوں کے بعد افسانہ نگار کو پڑھنے کی تڑپ آگ کی طرح بھڑکتی ہے۔
’’ڈھائی تین سال پہلے کی بات ہے۔‘‘ لالہ رُخ نے کہا۔ ’’پانچ افسانے لکھے تھے میں نے۔ اتنی محنت کی تھی میں نے کہ تم سوچ نہیں سکتے۔‘‘
’’انہیں پھاڑنے میں تو زیادہ محنت نہیں کی ہوگی۔‘‘ ثاقب نے کہا۔ ’’ایک بات یقینی ہے۔ تم بڑی ہو کر ایک نہایت بے وقوف عورت بنوگی۔‘‘
’’تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔ تم نے وعدہ کیا تھا کہ۔۔۔‘‘
’’میں نے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔‘‘
لالہ رُخ نے کہا۔ ’’وہ افسانے اسی قابل تھے۔ افسانہ صرف محنت کے سہارے نہیں لکھا جاسکتا۔ دو ماہ کی دن رات محنت کے بعد سمجھ میں آئی یہ بات۔ یہ کچھ اور ہی معاملہ ہوتا ہے۔ کوئی الگ ہی صلاحیت ہوتی ہے، کہانی سوچنے کی اور بیان کرنے کی اور اسے چمکانے کی صلاحیت۔‘‘
کا لفظ مجھے بچپن سے بہت بُرا لگتا ہے۔‘‘
’’لگنا بھی چاہئیے۔‘‘ لالہ رُخ نے کہا۔ ’’کیونکہ جس کے پاس صلاحیت ہوتی ہے، وہ صلاحیت سے محرومی کے المیہ کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’کیا واہیات بات ہے۔‘‘
’’جانتے ہو، جب میں نے پہلی بار تمہاری تحریر پڑھی تھی تو میں کئی گھنٹوں تک اپنے کمرے میں بند رہی تھی۔ خاموش اور حیرت زدہ۔ ایک عجیب وغریب خیال سے خوفزدہ، کہ اس دنیا میں ایک آدمی ایسا بھی ہے جو بالکل اسی طرح لکھتا ہے، جیسا لکھنے کی آرزو میرے دل میں ایک حسرت بن کر زندہ ہے۔ تم شاید یہ بات کبھی نہ سمجھ سکو۔ تمہیں قدرت کی طرف سے ایک تحفہ ملا ہے۔ طلب کئے بغیر۔ مانگے بغیر۔ تم نہیں سمجھ سکتے کہ تم پر کیسا کرم ہوا ہے۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تمہاری ساری کامیابیوں، ساری شہرت، سارے عیش وآرام کے پیچھے تمہاری صلاحیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’اور ساری ناکامیوں اور ساری تلخیوں۔۔۔‘‘
’’ہاں۔ وہ بھی ہیں۔ پوری کامیابی کس کو ملتی ہے؟۔ مگر تم نہیں جانتے کہ تم دنیا کے پوائنٹ زیرو ون پرسینٹ لوگوں میں سے ہو۔ اعشاریہ صفر ایک فیصد۔ یہ ہے دنیا میں لکھنے والوں کی تعداد۔ ایک لاکھ میں سے صرف دس لوگ صاحب کتاب بنتے ہیں۔ پوری ریسرچ ہے گزشتہ ساڑھے چھ سو سال کی۔ سات ارب لوگوں کی دنیا میں صرف سات لاکھ لوگ۔ اور یہ سب کہانی کار نہیں ہیں۔ ان میں ڈاکٹر بھی ہیں،معیشت کے ماہرین بھی، صحافی بھی، نفسیات دان بھی۔۔۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان میں ادیب شاعر ایک چوتھائی ہوں گے۔۔۔‘‘
کبھی کبھی ثاقب کو اپنا مرعوب ہونا بہت عجیب لگتا تھا۔ لالہ رُخ کی سادگی اور معصومیت کی چلمن سے جھانکتی علمیت اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت کوئی الہامی طاقت محسوس ہوتی تھی جس کے سامنے کج بحثی گناہ لگتی تھی اور سرجھکانا، بالکل قدرتی۔ پھر بھی یہ بہت عجیب تھا۔ بحث کرنا، اختلاف کرنا، ثاقب کے پسندیدہ مشاغل میں سے ایک تھا۔ کالج کے مباحثوں سے ادبی نشستوں میں ہونے والی گرما گرم گفتگو تک، دفتر آنے والے تقریباً جاہل کلائنٹس کے ساتھ ہونے والی دلائل کی بے مقصد جنگ سے دوستوں کے حلقے میں ہونے والی لڑائیوں تک، بحث ہمیشہ وہ شغل رہی تھی جو ثاقب کو لطف بخشتی تھی۔ جواسے جانتے تھے، اس کے سامنے بہت محتاط رہتے تھے۔ مگر یہ لالہ رُخ ۔۔۔
’’ایمانداری کی بات یہ ہے۔‘‘ لالہ رُخ نے کہا۔ ’’کہ تمہاری یہ عادت مجھے زہر لگتی ہے۔ بیٹھے بیٹھے گم ہوجانے والی عادت۔ جب چاہا، اپنے رسیور کا سوئچ آف کردیا۔ کسی سوچ میں گم ہوگئے۔ جب چاہا، سوئچ آن کردیا۔ تمہیں پتا ہے، دنیا میں بیویوں کی سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ شوہر ان کی بات توجہ سے نہیں سنتے۔ اگر میں تمہاری۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے رُک گئی۔
کمرے میں دیر تک سناٹا رہا۔
کچھ دیر بعد لالہ رُخ نے چائے کے کپ سمیٹے اور کچن کی طرف چلی گئی۔
ثاقب جانتا تھا، اب وہ برتن دھوئے گی، پھر کھانا بنانے کی تیاریوں میں لگ جائے گی۔ ایسا کئی بار ہوچکا تھا۔ خاموشی کا ایک تکلیف دہ وقفہ کچھ دیر تک ان کے درمیان فضا میں معلق رہتا تھا۔ پھر لالہ رُخ کسی بہانے منظر سے غائب ہوجاتی تھی۔ کم ازکم اتنی دیر کے لیے، جتنی دیر میں اِردگرد چھایا، نظرنہ آنے والا تناؤ مدھم پڑجائے۔ ثاقب کو وہ پہلی رات یاد آئی۔ وہ وقت یاد آیا جب ایک وحشت خیز طوفان تھم چکا تھا اور وہ اپنی سانسوں کو اور دل کی دَھڑکن کو قابو میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک بوجھ سا تھا جو ثاقب کو اپنے دل پر محسوس ہوتا تھا۔ کوئی بے چینی سی تھی جو لہو کے ساتھ ساتھ پورے بدن میں دوڑتی تھی۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ڈھونڈنے پر بھی لفظ نہیں مل رہے تھے۔ اور اس رات کی خاموشی میں لالہ رُخ کی سرگوشی گونجی تھی۔ یہ مت پوچھنا۔۔۔ اس نے بہت مدھم آواز میں کہا تھا۔۔۔ کہ ہم کس راہ پر جارہے ہیں۔۔۔ فائدے اور نقصان کا حساب کتاب مت کرنا۔۔۔ ثاقب حیران رہ گیا تھا۔ خوفزدہ ہوگیا تھا کہ وہ اس کے دل میں چھپی بات کا جواب دے رہی تھی۔ اس سے آگے بہت سی راتیں تھیں اور بہت سی سرگوشیاں۔
ثاقب کو پتہ بھی نہ چلا کہ دھیرے دھیرے چھاتی غنودگی کب نیند بنی۔
اس کی آنکھ کھلی تو گھنٹیاں بج رہی تھیں۔
پھر اسے احساس ہوا کہ لالہ رُخ چمچے سے پلیٹ بجارہی تھی۔ ’’نیند کے متوالو۔ اٹھو، کھانا کھالو۔‘‘
’’خدایا۔ میں کتنی دیر سوتا رہا۔؟‘‘
لالہ رُخ نے وال کلاک کو دیکھا اور کہا۔ ’’ڈیڑھ گھنٹہ ہونے والا ہے۔‘‘
شیشے کی چھوٹی سی میز پر کھانا سجا ہوا تھا۔
کرسی گھسیٹ کر بیٹھنے کے بعد ثاقب نے کہا۔ ’’پھر وہی آلو قیمہ۔ تمہیں کچھ اور پکانا نہیں آتا۔؟‘‘
لالہ رُخ مسکرائی۔ ’’یہ بحث ہم کئی بار کرچکے ہیں۔‘‘
’’بحث ایک بار پھر کی جاسکتی ہے۔‘‘
’’بالکل کی جاسکتی ہے۔ مگر کھانے کے بعد۔ ‘‘
ثاقب ان شعاعوں کو دیکھ سکتا تھا، ان لہروں کو محسوس کرسکتا تھا جو لالہ رُخ کے وجود سے پھوٹتی تھیں۔ اپنے مرد کے لیے اپنے ہاتھ سے کھانا پکانے کی، اسے کھلانے کی، اسے مطمئن اور سرشار رکھنے کی صدیوں پرانی روایت۔ ایک پتنی کھانا پروستی ہے اور آنچل کی اوٹ سے مسکراتی ہے۔ کہاوتوں اور روایتوں سے گندھی داستان جو اس خطے کی کروڑوں عورتوں کو زندگی کی تھکا دینے والی تگ ودو میں اطمینان کے اور مسرت کے اسباب بخشتی تھی۔
وہ کھانے سے فارغ ہوکر گفتگو میں الجھے ہوئے تھے جب لالہ رُخ نے اچانک کہا۔ ’’ہاں، یا دآیا۔ آج ڈیڈی آرہے ہیں۔‘‘
’’ڈیڈی آرہے ہیں۔؟‘‘ ثاقب نے چونک کرکہا۔ ’’کب۔۔۔؟‘‘
لالہ رُخ مسکرائی۔ ’’آج آرہے ہیں بھئی۔ شام کو۔ تم تو ایسے گھبرا گئے ہو جیسے ابھی جوتے اٹھا کر بھاگ کھڑے ہوگے۔‘‘
’’بہت چالاک ہوتم۔‘‘ ثاقب نے کہا۔ ’’یہ بات تم نے کل شام کو کیوں نہیں بتائی۔؟‘‘
’’کسی لڑکی کو منہ پر چالاک کہنا بدتمیزی کہلاتی ہے۔‘‘ لالہ رُخ نے کہا۔ ’’کل شام تمہیں بتا دیتی تو تم رات کو نہ رُکتے۔‘‘
’’ظاہر ہے۔‘‘
’’شام کی فلائٹ سے آئیں گے ڈیڈی۔ سات آٹھ گھنٹے رُکیں گے۔ علی الصبح کی فلائٹ سے جرمنی چلے جائیں گے۔ ویسے فکر نہ کرو، میں نے انہیں تمہارے بارے میں بتادیا ہے۔‘‘
’’کیا بتا دیا ہے۔؟‘‘ ثاقب اچانک محتاط ہوگیا۔
لالہ رُخ کا ہنستے ہنستے بُرا حال ہوگیا۔ بالآخر اس نے خود پر قابو پاکر کہا۔ ’’اتنا ہی بتایا ہے بھئی، جتنا ایک بیٹی اپنے باپ کو بتاسکتی ہے۔ تمہارے کئی افسانے میں انہیں پہلے ہی پڑھوا چکی تھی۔ ویسے ایک بات تو بتاؤ۔۔۔؟‘‘
ثاقب نے کہا۔ ’’میں کچھ کچھ اندازہ لگاسکتا ہوں کہ تمہارا سوال کیا ہوگا۔‘‘
لالہ رُخ نے اپنے چہرے پر گرآنے والے بال ہٹائے اور کہا۔ ’’اگر میں سب کچھ بتادوں تو کیا ہوگا۔؟ تم کیا کرو گے۔؟‘‘
ثاقب کو یوں لگا جیسے وہ کسی خلاء میں گرتا جارہا ہو۔ یہ سوال، ایک خنجر تھا جو بدن کو چیرتا جاتا تھا اور ایک خواب تھا جو امید کے خوش رنگ مرغزاروں کی سیر کراتا تھا اور ایک خیال تھا جو وسوسوں کے اور خدشوں کے ہزار دَر کھولتا تھا۔ کیا ہو، گرصبا پوچھے۔ اسے طالب علمی کے زمانے میں لکھی جانے والی کسی نظم کے بے ترتیب مصرعے یاد آنے لگے۔ کیا ہو گراداسی سے، یارِ خوش ادا پوچھے۔ کیا ہو گر وفا پوچھے۔۔۔
’’آئی ایم سوری۔‘‘ لالہ رُخ نے گھبرا کر کہا۔ ’’میں تو صرف۔۔۔‘‘
’’تم بتا ہی نہیں سکتیں لالہ رُخ۔‘‘ ثاقب کے لہجے میں تلخی تھی۔ چہرے پر سفاکی اور آنکھوں میں سرخی سجا دینے والی تلخی۔ دل میں گھاؤ ڈال دینے والی تلخی۔ ’’جیسے ڈرامے کا اداکار اپنی مرضی سے ڈائیلاگ نہیں بول سکتا، بالکل اسی طرح تم اپنی ساری جرأت، ساری بے خوفی کے باوجود اپنی ہی بنائی ہوئی ایک سرحد کو کبھی پار نہیں کرسکتیں۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں۔؟ ڈیڈی کو بتانا تو دور کی بات ہے، تم کسی کو بھی کچھ نہیں بتاسکتیں، کیونکہ یہ اسکرپٹ میں شامل نہیں ہے لالہ رُخ۔۔۔‘‘
لالہ رُخ کا رنگ فق ہوچکا تھا۔ ’’میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔۔۔‘‘
ثاقب نے اس کی بات جیسے سنی ہی نہیں۔ ’’ڈیڈی کو کچھ نہیں بتایا جاسکتا میری جان، کیونکہ اس سے زندگی میں بڑی گڑبڑ ہوجائے گی۔ بات پھیل گئی تو آسٹریلیا سے ڈگری لے کر آنے والا وہ نوجوان ہاتھ سے نکل جائے گا جس کے ساتھ تمہیں کامیابی کا سفر طے کرنا ہے، بزنس کو فروغ دینا ہے، بچے پیدا کرنے ہیں اور سماجی تقریبات میں مسکراتے ہوئے تصویریں بنوانی ہیں۔۔۔ پورے پلان کی سب تفصیلات طے ہیں لالہ رُخ۔ بساط کی ہر چال کا پہلے سے فیصلہ کرچکی ہو تم۔۔۔‘‘
’’تم پاگل ہوگئے ہو ۔۔۔‘‘ اس کے چہرے پر حیرت تھی اور خوف تھا۔
’’یوآررائٹ۔‘‘ ثاقب نے تلخی سے کہا۔ ’’مگر تم بالکل پاگل نہیں ہو۔ ساری والہانہ محبت کے باوجود تم اتنی ہوش مند ضرور ہو کہ ایک تصویر کو اپنے سرہانے سنبھال کر رکھو جو تمہیں بھی یاد دلاتی رہے کہ منزل کس جانب ہے اور تم سے ربط رکھنے والوں کو بھی۔ یہ کیا کھیل ہے لالہ رُخ، جو تم اس محفوظ چار دیواری میں کھیل رہی ہو۔ میں کیا ہوں تمہارے لیے۔؟ محبوب یا بساط کا ایک مہرہ، جسے آگے کوئی دوسرا طاقتور مہرہ مار دے گا۔؟‘‘
آنسو لالہ رُخ کی آنکھوں سے نکلتے، اس کے چہرے پر بہتے، نیچے گرتے جارہے تھے۔ اس نے میز کے کنارے کو یوں پکڑ رکھا تھا جیسے نیچے گرنے سے بچنا چاہتی ہو۔
ثاقب کے سینے میں ایک آگ سی بھڑکتی تھی۔ سارے اندرون کو جھلسا دینے والی آگ۔ سب کچھ جلا کر راکھ کر دینے والی آگ۔ ’’مجھے پہچانو لالہ رُخ۔‘‘ اس کی آواز کمرے میں گونجی۔ ’’میں وہ کھلونا ہوں جسے تم بچپن میں سینے سے لگا کر سوتی تھیں لیکن جو اب کاٹھ کباڑ کے گودام میں پڑا ہے۔ وہ لباس ہوں جسے تم نے بہت شوق سے خریدا تھا لیکن چھ ماہ بعد ہی اپنی ماسی کی بیٹی کو بخش دیا تھا۔ میں زندگی کا ایک ایڈونچر ہوں لالہ رُخ، جو ہم سب جوانی میں کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔ ایک شوق، جسے ختم ہوجانا ہے۔ اور ایک واقعہ جسے یاد کے قبرستان میں دفن ہوجانا ہے۔ اس کے سوا میں کیاہوں۔؟‘‘
لالہ رُخ کا بدن خاموش ہچکیوں سے کانپ رہا تھا۔ اچانک کسی طوفان کی زد میں آجانے والے تنکے کی طرح لرزاں۔
کمرے میں سناٹا تھا اور بیڈ کے سرہانے رکھے کلاک کی خفیف ٹک ٹک اور ایک گہرا تناؤ۔
لالہ رُخ نے لرزتی ہوئی آواز میں سرجھکائے جھکائے کہا۔ ’’میں تمہیں خوشی نہیں دے سکی۔‘‘
ثاقب کی ہنسی میں وحشت تھی۔ ’’میں ایک ناخوش آدمی ہوں لالہ رُخ۔ شاید مجھے کوئی بھی خوشی نہیں دے سکتا۔ جانتی ہو کیوں۔؟ کیونکہ میں کسی اور دنیا کا آدمی ہوں۔ ہمارے قبیلے والے انسانوں کو پڑھنے میں عمر گزار دیتے ہیں۔ ایک ہی تو کام آتا ہے ہمیں۔ چہرے پڑھنے کا کام۔ آنکھوں کے راستے دلوں میں جھانکنے اور آدمی کے اندر چھپی کہانیاں پڑھ لینے کا کام۔ ناخوش رہنا ہماری مجبوری ہے لالہ رُخ۔ یوں بھی یہ سارا کھیل مجھے خوشی دینے کے لیے کب تھا۔؟ یہ تو۔۔۔‘‘
’’یہ مت کرو۔‘‘ لالہ رُخ کے لہجے میں اِلتجا تھی اور آنکھوں میں آنسو۔ ’’سب کچھ اس طرح ختم مت کرو۔ خوشیوں بھرے ان دنوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔؟ انہیں ایک تلخ یاد مت بناؤ۔۔۔‘‘
’’تاکہ کھیل تمہاری مرضی کے مطابق ختم ہو۔؟ ’’ثاقب نے کہا۔‘‘ یہی چاہتی ہونا تم۔؟ تاکہ تم ہنسی خوشی اپنے راستے پر چلی جاؤ اور کبھی کبھار ایک گزرے ہوئے تعلق کو تنہائی میں یاد کرو اور مسکراؤ اور سر جھٹک کر بھول جاؤ۔ بس ایک سنہری یاد، جسے تم اپنے سیل فون اور اپنے کریڈٹ کارڈ کی طرح پرس میں سنبھال کررکھنا چاہتی ہو۔‘‘
لالہ رُخ نے چلّا کر کہا۔ ’’کیا یہ بھی میرا حق نہیں ہے۔؟‘‘
ثاقب خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اس کے تمتماتے ہوئے چہرے پر آنکھوں سے بہہ آنے والے کاجل کی بے ترتیب لکیریں تھیں۔
’’اور ان کا کیا حق ہوتا ہے جنہیں تم چھوڑ کر چلی جاؤ۔۔۔؟‘‘ ثاقب نے آہستہ سے کہا۔ ’’ان کے بارے میں بھی کچھ سوچا ہے۔؟ جو تمہیں پاکر کھونا نہ چاہتے ہوں۔؟‘‘
لالہ رُخ نے کچھ کہنا چاہا۔ اس کے لب کھلے اور کپکپائے مگر وہ کچھ کہہ نہ سکی۔
ثاقب نے کرسی کی پشت پر لٹکا کوٹ اٹھایا اور میز پر رکھی گاڑی کی چابیاں۔ ایک تھکن تھی جو دھیرے دھیرے اس کے بدن میں اترتی جاتی تھی اور کوئی نامعلوم خوف تھا جو ایک آہنی شکنجے کی طرح اس کے دل پر دباؤ بڑھاتا جاتا تھا۔
کمرے کے وسط میں لالہ رُخ کھڑی تھی۔ کسی بُت کی طرح۔ ہلنے جلنے کی صلاحیت سے محروم۔ کچھ کہنے سے قاصر۔ ایک سنگی مجسمہ جس کے چہرے پر بے یقینی اور دُکھ منجمد نظر آتا تھا۔
ثاقب نے دروازہ کھولا اور باہر نکلنے سے قبل لالہ رُخ پر ایک نظر ڈالی۔ وہ ساکت کھڑی تھی اور اس کی نظریں سامنے والی دیوار پر مرکوز تھیں۔
وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتا گیا۔
اس کے پیچھے وہ دروازہ تھا جو لالہ رُخ اپنے بے قرار ہاتھوں سے کھول سکتی تھی، وحشت کے عالم میں سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی آسکتی تھی۔ اور آگے تنہائی تھی جو با نہیں پھیلائے اس کی واپسی کا انتظار کررہی تھی۔
وہ سیڑھیاں اترتا گیا۔