کمال تشنگی کی انتہا ہوں
کمال تشنگی کی انتہا ہوں
سمندر ہوں مگر پیاسا رہا ہوں
بہ ایں بربادی و با صد خرابی
ترا اے زندگی نغمہ سرا ہوں
تجھے کیوں اس قدر چاہا تھا میں نے
تجھے کیوں بھول جانا چاہتا ہوں
بدلتے موسموں سے جا کے پوچھو
میں گل ہوں خار ہوں غنچہ ہوں کیا ہوں
زمانے دیکھ میری کج کلاہی
جہاں تھا میں وہیں اب بھی کھڑا ہوں
مہک اٹھتے ہیں یادوں کے دریچے
ترے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں
انہیں راہوں پہ چلنا کیا ضروری
کہ جن کو روند کر میں جا چکا ہوں