کلام اکبر پر ایک نظر

ولیؔ اور میرؔ سے لے کر امیرؔ و داغؔ تک اردو زبان نے جو رنگ بدلے ہیں وہ ایشیائی شاعر کے ماہرین سے مخفی نہیں ہیں۔ بیشک تخیلات شاعری میں بجز غالبؔ کے کوئی جدید روش نہیں اختیار کی گئی۔ تاہم محاورات، بندش، اور اسلوب بیان میں مختلف شعرا میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ ولیؔ نے جن خیالات کو لیا ہے وہ ہیں تو بہت بلند لیکن ان کی ترکیبوں اور اس زمانے کی ترکیبوں میں بڑا فرق ہے۔ میرؔ و سوداؔ اور انشاؔ کا رنگ بھی الگ الگ ہے لیکن رفتار خیال کی شاہراہ ایک ہی ہے یعنی اکثر خیالات بھاشا اور فارسی سے ملتے ہوئے ہیں اور ایسے خیالات بھی ہیں جو فارسی سے مقتبس نہیں کہے جا سکتے۔صدہا محاورات اور ترکیبیں فارسی سے جدا ہیں۔ تمام مشاہیر اساتذہ اردو نے درسیات فارسی اور کتب متداولہ عربی پڑھی ہیں اور عربی میں اگر تبحر نہیں حاصل کیا ہے تو کم سے کم فارسی اور صرف و نحو پڑھی ہے۔ کیونکہ بغیر اس قدر تحصیل کے مذاق سلیم اور ادراک صحیح نہیں ہو سکتا۔ اور بعضے شعرا اردو تو فاضلانہ قابلیت رکھتے تھے مگر یہ سب خیال بندی اور معانی آفرینی میں فارسی شعرا کے مقلد تھے اور گزشتہ اساتذہ اردو کا طرز معاشرت بھی قدیم اور اس زمانے سے بالکل الگ تھا۔ اور داغؔ اور میرؔ نے جس زمانے میں نام حاصل کیا گو اس زمانے کی تہذیب میرؔ وغیرہ کے زمانے سے ہٹ گئی تھی لیکن وہ اس سے متاثر نہیں ہوئے اور اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ وہ نہ خود انگریز تھے اور نہ ان کی سرکاریں انگریزی مذاق رکھتی تھیں۔ اس وجہ سے ان کا کلام قدیم رنگ پر تھا۔لیکن جناب اکبر قدیم علوم کے علاوہ انگریزی زبان کے بھی ماہر ہیں اوراسی مناسبت سے جناب اکبر نے اپنے کلام میں جابجا انگریزی زبان کے الفاظ کو بھی کھپایا ہے اور کہیں کہیں یہ ترکیب نہایت دلآویز ہے۔ ظریفانہ رنگ کے اشعار میں یہ ترکیبیں سونے میں سہاگہ ہوگئی ہیں۔ لیکن زیادہ تر غزلیں بہ پابندی تخیل قدیم کہی گئی ہیں۔ اکثر اشعار میرؔ و مرزاؔ اور غالبؔ کے رنگ کے ہیں۔ کچھ غزلیں جناب اکبرؔ نے اپنے خاص رنگ میں کہی ہیں جو ناظرین آگے چل کر ملاحظہ فرمائیں گے۔زمانہ حال کی اردو شاعری ایک عجیب کشمکش میں گرفتار ہے۔ انگریزی تعلیم کا خیالات پر ایسا مقناطیسی اثر ہوا ہے کہ لوگ پرانی باتوں سے بیزار ہوگئے ہیں۔ نظم اردو میں بھی یہی کیفیت نمایاں ہے۔ اور شعرا حال کی صاف صاف دو جماعتیں ہوگئی ہیں۔ داغؔ اور حالیؔ کے طفیل میں شعرائے اردو کے ایک دوسرے سے متضاد دو اسکول قائم ہوئے جو کئی لحاظ سے ’درباری‘ اور ’گورنمنٹی‘ یا ’سکولی‘ نام سے نامزد ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں طبقوں میں بعد المشرقین ہے۔ ایک نے قدامت پرستی کی قسم کھا لی ہے۔ اور دوسرے ہیں کہ جدت پسندی اور آزادی پر مٹے ہوئے ہیں۔ اقلیم سخن میں ان دونوں متضاد جماعتوں کی بدولت ایک طرح کا تہلکہ مچا ہوا ہے۔ ملک میں ایک طرف تو دربار سخن سے ان کے نکالنے کی فکر ہو رہی ہے، کلمہ تکفیر پڑھا جا رہا ہے۔ اور دوسری جانب ان کے حقوق شاعرانہ پر جھگڑا برپا ہے۔ عام شائقین سخن ان دونوں کو ضرورت سے زیادہ جوشیلا پاتے ہیں، اور اعتدال پسند کرتے ہیں۔ یہی ہر دلعزیز ہوتا بھی ہے۔اس میں شک نہیں کہ پرانے قصوں، اور استعاروں اور تشبیہوں کے محض دہرانے سے موجودہ زمانے کے لوگ مسرور کیا مطمئن بھی نہیں ہو سکتے۔ دل شاعری سے لفظوں کے الٹ پھیر کے سوا کچھ اور کی بھی توقع رکھتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے ابھی بالکل آزادی بھی مناسب نہیں جو نظم کی اشد ضروری قیود کا بھی لحاظ نہ رکھا جائے۔ نرے وعظ خشک قبول خاطر نہیں ہوتے۔ نظم سے لوگ ظاہر فائدے کے بہ نسبت مسرت کی زیادہ امید رکھتے ہیں۔ مگراس پہلو کو بالکل نظر انداز کرنا بھی خلاف مصلحت ہے۔شکر ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے بین بین چند ایسے شعرا بھی ہیں جنہوں نے زبان اور نظم پر قادر الکلام ہونے کے ساتھ ساتھ ضروریات زمانہ کو بھی بخوبی محسوس کر لیا ہے اور ان میں ہم جناب خان بہادر سید اکبر حسین صاحب جج الہ آباد کا درجہ بہت اونچا پاتے ہیں۔ آپ نے زمانے کے خیالات اور ضروریات کا صحیح اندازہ کر لیا ہے۔ ان کے کلام میں دونوں رنگ اعتدال کے ساتھ موجود ہیں۔ اور اسی وجہ سے آپ کی شاعری اس درجہ مقبول خاص و عام ہے۔ آپ کو دلچسپی اور دلفریبی کے لحاظ سے پرانے طرز سخن کا بھی پاس ہے اور اس کے ساتھ ہی خیالات میں اس کے تنگ حدود کی پابندی منظور نہیں۔ اسی وجہ سے آپ کا کلام موجودہ معیار شاعری کے مطابق ہے۔ اس میں ایشیائی انداز بیان میں مغربی خیالات کے اعلیٰ ترین نمونے ملتے ہیں۔ موجودہ زندگی کے مختلف مسائل پر بھی خاطرخواہ ہدایت اور ہمدردی ہوتی ہے۔ جذبات انسانی کی بھی جھلک رہتی ہے۔ اور کیا عجب ہے کہ کچھ دنوں میں ملک کے مختلف اثرات آپ کے انداز سخن پر مستقل طور سے قائم ہو جائیں۔ اوراس طرح میدان نظم کے موجودہ فریق مل کر ایک ہو جائیں۔مگر فی الحال کشمکش جاری ہے۔ اور اس کو جناب اکبرؔ نے ایک نہایت لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے،قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبرؔ تو صاف کہتے ہیں ’سید‘ یہ رنگ ہے میلاجدید طرز اگر اختیار کرتا ہوںخود اپنی قوم مچاتی ہے شور واویلاجو اعتدال کی کہئے تو وہ ادھر ادھرزیادہ حد سے دیے سب نے پاؤں میں پھیلاادھر یہ ضد ہے کہ لمنڈ بھی چھو نہیں سکتےادھر یہ دھن ہے کہ ’ساقی صراحی مے لا‘ادھر ہے دفتر تدبیر و مصلحت ناپاکادھر ہے وہی ولایت کی ڈاک کا تھیلاغرض دوگونہ غذا بست جان مجنوں رابلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰمگر اس مشکل کو اکبرؔ نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ آسان کر دکھایا ہے اور ہر شخص اپنے اپنے مذاق کے موافق آپ کے کلام سے اشعار کا انتخاب کر سکتا ہے۔ عشق و محبت کے جن جذبات کو آپ نے موزوں کیا ہے وہ نہایت خوبی سے نظم کئے گئے ہیں۔ تغزل کا رنگ ایسا پیارا ہے کہ عاشق مزاج سخن فہم آپ کا کلام پڑھ کر بے چین ہو سکتا ہے۔ کلام میں بے ساختگی ہی وہ شے ہے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جناب اکبرؔ کے دیوان میں اکثر اشعار تیر و نشتر کا کام دینے والے ہیں۔ اشعار کا مفہوم قرین قیاس ہے اور مبالغہ بھی بالکل دور از قیاس نہیں بلکہ خوش آئند۔ وہ تمام خوبیاں جو ایک کہنہ مشق اور خوش فکر شاعر کے کلام میں ہونا چاہئے، آپ کی کلیات میں موجود ہیں۔آپ کا کلیات چالیس سال کی محنت کا نتیجہ ہے۔ غزلیں، رباعیات، قطعات ومثنویات، ظریفانہ اور متفرق اشعار کا ایک دلچسپ مجموعہ ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کلیات باعتبار ترتیب اس قابل ہے کہ طبع ثانی میں اس کی اصلاح کر دی جائے لیکن اس بات کو نفس مطلب سے زیادہ تعلق نہیں ہے۔ مبصر اور نقاد سخن تو کلام کی خوبیوں کو دیکھتا ہے اور اس لحاظ سے یہ کلیات بہت ہی قابل قدر ہے۔ اس کی اشاعت سے ایشیائی شاعری میں موجودہ زمانے کے موافق معقول اضافہ ہوا ہے۔ کچھ مختصر انتخاب ملاحظہ ہو،مری حقیقت ہستی یہ مشت خاک نہیںبجا ہے مجھ سے جو پوچھے کوئی پتا میرادر حقیقت یہ شعر اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت بلیغ ہے۔ واقعی انسان کی ہستی فقط مشت خاک ہی نہیں، عارف مشت خاک کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے اور اسی واسطے ایک اسلام لیڈر (پیشوا) نے کہا ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ مصرعہ ثانی صاف ہے اور طالب حقیقت کو چاہتے ہیں کہ کاش وہ اس رمز کو دریافت کرے۔ ایک اردو شعر میں یہ نازک خیالی معمولی بات نہیں ہے۔پیغمبرؐ اسلام صلعم کی نعت میں یہ اشعار خوب کہے ہیں،در فشانی نے تری قطروں کو دریا کردیادل کو روشن کردیا آنکھوں کو بینا کردیاخود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئےکیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیاہمرازدل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملابت کے بندے ملے اللہ کا بندا نہ ملاوارفتگی عشقواہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نےکر دیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملااسی زمیں میں دو ظرافت آمیز شعر ہیں،رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائمرنگ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملاسید اٹھے جو گزٹ لے کے تولا کھوں لائےشیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسا نہ ملااگر یہ شعر غزل سے الگ کسی نظم میں شامل کئے جاتے تو دلچسپی بڑھ جاتی مگر جناب اکبرؔ کی بے تکلف طبیعت نے اس کا خیال نہیں کیا۔ عاشقانہ رنگ میں یہ اشعار قابل داد ہیں اورخوبی یہ کہ ان میں تصوف کی جھلک بھی موجود ہے،غنچہ دل کو نسیم عشق نے وا کردیامیں مریض ہوش تھا مستی نے اچھا کردیادین سے اتنی الگ حد فنا سے یوں قریباس قدر دلچسپ کیوں پھر رنگ دنیا کردیاسب کے سب ماہر ہوئے وہم و خرد ہوش و تمیزخانہ دل میں تم آؤ ہم نے پردا کردیاتوحیدتصور اس کا جب بندھا تو پھر نظر میں کیا رہانہ بحث این و آں رہی نہ شورما سوا رہاآزادانہجو مل گیا وہ کھانا داتا کا نام جپنااس کے سوا بتاؤں کیا تم سے کام اپناعاشقانہعقل کو کچھ نہ ملا علم میں حیرت کے سوادل کو بھایا نہ کوئی رنگ محبت کے سوابڑھنے تو ذرا دو اثر جذبہ دل کوقائم نہیں رہنے کا یہ انکار تمہاراباعث تسکین نہ تھا باغ جہاں کا کوئی رنگجس روش پر میں چلا آخر پریشاں ہوگیاجناب اکبرؔ نے یہ شعر خوب کہا ہے اور گویا غالبؔ کے مضمون کو دوسرے پیرایہ سے نظم کیا ہے،بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفلجو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلادرازی عمر کی شکایتبس یہی دولت دی تو نے اے عمر عزیزسینہ اک گنجینہ داغ عزیزاں ہو گیاہے غضب جلوہ دیر فانی کاپوچھنا کیا ہے اس کے بانی کاہوش بھی بار ہے طبیعت پرکیا کہوں حال ناتوانی کامعرفتنسیم مستانہ چل رہی ہےچمن میں پھر رت بدل رہی ہےصدا یہ دل سے نکل رہی ہےوہی ہے یہ گل کھلانے والاترک تعلقخودی گم کر چکا ہوں اب خوشی و غم سے کیا مطلبتعلق ہوش سے چھوڑا تو پھر عالم سے کیا مطلبجسے مرنا نہ ہو وہ حشر تک کی فکر میں الجھےبدلتی ہے اگر دنیا تو بدلے ہم سے کیا مطلبمری فطرت میں مستی ہے حقیقت میں ہے دل میرامجھے ساقی کی کیا حاجت مے جام جم سے کیا مطلبدل ہو وفا پسند نظر ہو حیا پسندجس حسن میں یہ وصف ہو وہ ہے خدا پسندتوڑوں پہ تیرے جھومنے لگتی ہے شاخ گلبے حد ہے تیرا ناچ مجھے اے صبا پسنداردو کے سلسلے میں بعض فارسی غزلیں بھی درج کردی گئی ہیں اور انصاف یہ ہے کہ جناب اکبرؔ فارسی میں بھی ایک زبان داں کی حیثیت سے کہتے ہیں۔ دو ایک شعر ملاحظہ ہوں،وقت بہار گل دلم از ہوش دور بودموج نسیم دشمن شمع شعور بودیک جلوہ گردد صورت پروانہ سوختمآرہی ہیں علاج دل ناصبور بودخوش بود آں زماں خودی از خود خبرنداشتہوشم بخواب بود دلم از حضور بوداردوموقوف کچھ نہیں ہے فقط مے پرست پر زاہد کو بھی ہے وجد تری چشم مست پراس باوفا کو حشر کا دن ہوگا روز وصلقائم رہا جو دہر میں عہد الست پرجدید ترکیب اور ظریفانہ رنگ میں یہ مطلع ملاحظہ ہو،میل نظرہے زلف مس کج کلاہ پرسونا چڑھا رہا ہوں میں تار نگاہ پرعاشقی اور امیدطبع کرتی ہے ترے عشق کی تائید ہنوزان جفاؤں پہ بھی ٹوٹی نہیں امید ہنوزدوسرا شعر اکثر ہندوستانیوں کے حسب حال ہے،نہ خوشی ہوتی ہے دل کو نہ طبیعت کو ابھارپھر بھی سالانہ کئے جاتے ہیں ہم عید ہنوزشب فراق کا منظرشب فراق کی خیالی تصویر شعرا نے مختلف انداز سے اتاری ہے۔ غالبؔ نے اس خیال کو یوں نظم کیا ہے،داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئیایک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہےجناب اکبرؔ نے بھی اس خیال کو اثر انداز لہجے سے موزوں کیا ہے،نہیں کوئی شب تار فراق میں دل سوزخموش شمع ہے خود جل رہے ہیں شام سے ہمنگاہ پیرمغاں کہتی ہے مریدوں سےرہ سلوک میں واقف ہیں ہر مقام سے ہمجناب اکبر کا یہ شعر حافظ شیرازی کے اس شعر کے مفہوم کے قریب قریب ہے،بے مے سجادہ رنگیں کن کرت پیر مغاں گویدکہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہاانقلاب زمانہفلک کے دور میں ہارے ہیں بازی اقبالاگرچہ شاہ تھے بدتر ہیں اب غلام سے ہمنازک خیالیمری بے تابیاں بھی خود ہیں اک میر ہستی کییہ ظاہر ہے کہ موجیں خارج از دریا نہیں ہوتیںافسردہ دلیہوا ہوں اس قدر افسردہ رنگ باغ ہستی سےہوائیں فصل گل کی بھی نشاط افزا نہیں ہوتیںقضا کے سامنے بے کار ہوتے ہیں حو اس اکبرؔکھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیںآزادی کے لالےاتنی آزادی بھی غنیمت ہےسانس لیتا ہوں بات کرتا ہوںمشکلات حق شناسیمعرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہےشہر تن میں جبکہ خود اپنا پتا ملتا نہیںدوستوں کی یادزندگانی کا مزا ملتا تھا جن کی بزم میں ان کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیںدشت غربت کی بے کسیبے کسی میری نہ پوچھ اے جادہ راہ طلبکارواں کیسا کہ کوئی نقش پا ملتا نہیںیوں کہو مل آؤں ان سے لیکن اکبر سچ یہ ہےدل نہیں ملتا تو ملنے کا مزا ملتا نہیںعاشقانہ زندگیدل زیست سے بیزار ہے معلوم نہیں کیوںسینہ پہ نفس بار ہے معلوم نہیں کیوںجس سے دل رنجور کو پہنچی ہے اذیتپھر اس کا طلب گار ہے معلوم نہیں کیوںانداز تو عشاق کے پائے نہیں جاتے اکبرؔ جگر افگار ہے معلوم نہیں کیوںذیل کی طرح میں آپ نے ایک طولانی غزل لکھی ہے اور خوب خوب شعر نکالے ہیں۔ غالباً یہ غزل مشاعرہ مقام پریانواں میں کہی ہے۔ یہ ساری غزل مرصع ہے۔ دوتین شعر ملاحظہ ہوں،ہجر کی رات یوں ہوں میں حسرت قدیار میںجیسے لحد میں ہو کوئی حشر کے انتظار میںرنگ جہاں کے ساتھ کاش میری یونہی ہو بسرجیسے گل و نسیم کی نبھ گئی چاہ پیار میںآنکھ کی ناتوانیاں حسن کی لن ترانیاںپھر بھی ہیں جانفشانیاں کوچہ انتظار میںترغیب درستی اخلاقآئینہ رکھ دے بہار غفلت افزا ہو چکیدل سنوار اپنا جوانی میں خود آرا ہو چکیخانہ تن کی خرابی پر بھی لازم ہے نظرزینت آرائش قصر معلیٰ ہو چکیبے خودی کی دیکھ لذت کرکے ترک آرزوہو چکی حد ہوس مشق تمنا ہو چکیچل بسے یاران ہمدم اٹھ گئے پیارے عزیزآخرت کی اب کر اکبرؔ فکر دنیا ہو چکیعیادت کو آئے شفا ہو گئیعلالت ہماری دوا ہو گئیپڑھی یاد رخ میں جو میں نے نمازعجب حسن کے ساتھ ادا ہو گئیبتوں نے بھلایا جو دل سے مجھےمرے ساتھ یاد خدا ہوگئیمریض محبت ترا مر گیاخدا کی طرف سے دوا ہو گئینہ تھا منزل عافیت کا پتہ قناعت مری رہنما ہوگئیاشارہ کیا بیٹھنے کا مجھےعنایت کی آج انتہا ہوگئیدوا کیا کہ وقت دعا بھی نہیںتری حالت اکبرؔ یہ کیا ہوگئیحقیقت عالمدو عالم کی بنا کیا جانے کیا ہےنشان ماسوا کیا جانے کیا ہےمری نظروں میں ہے اللہ ہی اللہدلیل ماسوا کیا جانے کیا ہےجنون عشق میں ہم کاش مبتلا ہوتے خدا نے عقل جو دی تھی تو باخدا ہوتےلطف زباںیہ خاکسار بھی کچھ عرض حال کر لیتاحضور اگر متوجہ ادھر ذرا ہوتےیہ ان کی بے خبری ظلم سے بھی افزوں ہےاب آرزو ہے کہ وہ مائل جفا ہوتےبے ثباتی عالمدو ہی دن میں رخ گل زرد ہوا جاتا ہےچمن دہر سے دل سرد ہوا جاتا ہےرقابتمیرے حواس عشق میں کیا کم ہیں منتشرمجنوں کا نام ہوگیا قسمت کی بات ہےتعلقات حسن و عشقسو رنگ تصور میں ہم اے جان درآئےہر رنگ میں تم آفت ایمان نظر آئےعاشقانہدم لبوں پرتھا دل زار کے گھبرانے سےآگئی جان میں جان آپ کے آجانے سےانقلاب زمانہ اور فقدان اتفاقکل تک محبتوں کے چمن تھے کھلے ہوئےدو دل بھی آج مل نہیں سکتے ملے ہوئےتمہیں سے ہوئی مجھ کو الفت کچھ ایسینہ تھی ورنہ میری طبیعت کچھ ایسیگرے میر ی نظروں سے خوبان عالمپسند آگئی تیری صورت کچھ ایسیذیل کی غزل میں قافیہ و ردیف کس قدر چسپاں ہے۔ نازک خیالی کے ساتھ تغزل کی شان بھی دیکھنے کے قابل ہے،درد دل بھی نہ تھا سوزش جگر بھی نہ تھیان آفتوں کی تو الفت میں کچھ خبر بھی نہ تھیزمانہ سازی ہے اب یہ کہ منتظر تھا میںہمارے آنے کی تم کو تو کچھ خبر بھی نہ تھیلپٹ گئے وہ گلے سے مرے تو حیرت کیاوہ سنگ دل بھی نہ تھے آہ بے اثر بھی نہ تھیشہید جلوۂ مستانہ ہو گیا شب وصلخوشی نصیب میں عاشق کے رات بھر بھی نہ تھییہاں تک جو کچھ انتخاب کیا گیا وہ قدیم رنگ تغزل کو لئے ہوئے ہے۔ اکبرؔ نے حسن وعشق، شوخی اور ضد معشوقہ وغیرہ سب مضامین پرخوب خوب طبع آزمائیاں کی ہیں مگر ہم بخوف طوالت اس صنف میں اسی قدر انتخاب کو کافی سمجھتے ہیں اور اب آپ کی شاعری کی اس امتیازی خصوصیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جس نے آپ کو سر آمد شعرائے روزگار بنا دیا ہے اور جس نے آپ کے کلام کو ایک نرالی اور بہت مرغوب شان عطا کی ہے۔ ہماری مراد آپ کے خداداد ظریفانہ رنگ سخن سے ہے جو آپ کے تمام کلام میں موجود ہے۔ اور جس سے آپ کی نصیحت دل پذیر اور موثر اور آپ کی فضیحت و دل نشیں اور کامیاب ہوتی ہے۔ حسن اتفاق سے کہئے یا مصلحت ایزدی سے آپ کا وجود قوم کے دماغی نشو و نما کے لحاظ سے تاریخ ہند کے ایک نازک زمانے میں ہوا ہے۔ جس میں دو عظیم الشان تہذیبوں کی کشمکش درپیش ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب کا سکہ پھر رہا ہے۔ دوسری جانب مشرقی تہذیب پر دلوں پر تسلط جمائے ہوئے ہے۔ خیالات اور معاشرت غرض زندگی کے ہر پہلو میں تغیر و تبدل کا زمانہ اور افراط و تفریط کا عہد ہے۔ ابھی تک کسی حالت پر قرار کی صورت پیدا نہیں ہو سکی ہے۔ اور اس لئے مختلف قسم کی خرابیاں ظاہر ہو رہی ہیں۔ اور افراد قوم کے خیال ومقال، علم اور عمل مذہب اور معاشرت، جذبات اور محسوسات میں عجب اختلاف اور نیرنگیاں اور طرح طرح کی ایک دوسرے سے متضاد بدعملیاں نمایاں ہو رہی ہیں۔ ایسی حالت میں ایک ناصح، شفیق مذاق اور مضحکہ سے جو کام لے سکتا ہے، وہ پند و نصیحت سے ممکن نہیں ہے۔ اور یہی جناب اکبر کی ظرافت کی علت غائی ہے۔ اس رنگ میں ان کی شاعری نے جو کمال حاصل کیا ہے وہ اردو میں آج تک کسی کو نصیب ہی نہیں ہوا۔ ایک لفظ ایک فقرے میں آپ وہ بات پیدا کردیتے ہیں۔1 جو دوسروں سے صفحوں کے صفحے رنگ ڈالنے پر بھی ممکن نہیں۔ بعض اشعار تو بالکل کشت زعفراں ہیں۔ پولٹیکل واقعات کا بھی آپ نے مضحکہ اڑایا ہے،کرزن و کنچر کی حالت پر جوکلوہ صنم تشریح کا طالب ہواکہہ دیا میں نے کہ ہے یہ صاف باتدیکھ لو تم زن پہ نر غالب ہوامناسبت وقتشیخ صاحب یہ تو اپنے اپنے موقع کی بات ہےآپ قبلہ بن گئے میں اسکوائر ہو گیااس زمانے کے نوجوانوں کے حسب حال یہ شعر بھی خوب کہا ہے،پری کی زلف میں الجھا نہ ریش واعظ میںدل غریب ہوا لقمہ امتحانوں کاوہ حافظہ جو مناسب تھا ایشیا کے لئےخزانہ بن گیا یورپ کی داستانوں کاآسائش عمر کے لئے کافی ہےبی بی راضی ہوں اور کلکٹر صاحبپردہ اور ہندوستانیپردے میں ضرور ہے طوالت بے حدانصاف پسند کو نہیں چاہئے ہٹتشبیہ بری نہیں اگر میں یہ کہوںبیگم صاحب پیچواں لیڈی سگریٹہر رنگ کی باتوں کا مرے دل میں ہے جھرمٹاجمیر میں کلچا ہوں علی گڑھ میں ہوں بسکٹپابند کسی مشرب و ملت کا نہیں ہوںگھوڑا مری آزادی کا اب جاتا ہے بگ ٹٹبی شیخانی بھی ہیں بہت ذی ہوشکہتی ہیں شیخ سے بجوش و خروشخواہ لنگی ہو خواہ ہو تہمددر عمل کوش ہر چہ خواہی پوششمع سے تشبیہ پا سکتے ہیں یہ عیاش امیررات بھر پگھلا کریں دن بھر رہیں بالائے طاقمیرے منصوبے ترقی کے ہوئے سب پائمالبیج مغرب نے جو بویا وہ اگا اور پھل ہوگیابوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضمون لکھاملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیاکوٹھی میں جمع ہے نہ ڈپازٹ ہے بینکس میںقلاش کر دیا مجھے دوچار تھینکس میںپانیر کے صفحہ اول میں جس کا نام ہومیں ولی سمجھوں جواس کو عاقبت کی فکر ہوجال دنیا سے بے خبر ہیں آپتو تقدس مآب بے شک ہیںشیخ جی پر یہ قول صادق ہےچاہ زمزم کے آپ مینڈھک ہیںماشاء اللہ وہ ڈنر کھاتے ہیںبنگالی بھائی ان کا سر کھاتے ہیںبس ہم ہیں خدا کے نیک بندے اکبرؔان کی گاتے ہیں اپنے گھر کھاتے ہیںموکل چھٹے ان کے پنجے سے سبتو بس قوم مرحوم کے سر ہوئےپپیہے پکارا کئے پی کہاںمگر وہ پلیڈر سے لیڈر ہوئےشو میکری شروع جو کی ایک عزیز نےجو سلسلہ ملاتے تھے بہرام گور سےپوچھا کہ بھائی تم تھے تلوار کے دھنیمورث تمہارے آئے تھے غزنی و غور سےکہنے لگے ہے اس میں بھی اک بات نوک کیروٹی اب ہم کھاتے ہیں جوتی کے زور سےاپنے بھائی کے مقابل کبر سے تن جایئےغیر کا جب سامنا ہو بس قلی بن جایئےچندے کی مجلس میں پڑھئے رو کے قرآن مجیدمذہبی محفل میں لیکن مثل دشمن جایئےآپ کی انجمن کی ہے کیا باتآہ چھپتی ہے واہ چھپتی ہےاپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئےاخبار میں تو میرا نام چھاپ دیجئےمحتاج اور وکیل ومختار ہیں آپسارے عملوں کے ناز بردار ہیں آپآوارۂ و منتشر ہیں مانند غبارمعلوم ہوا مجھے زمیندار ہیں آپناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ اکبر نے ظرافت اور مذاق میں بھی کیسی خوبیاں پیدا کی ہیں اور در اصل موجودہ تہذیب اور طرز معاشرت کا خاکہ کھینچ دیا ہے۔ اس رنگ میں صدہا اشعار لکھے ہیں۔ اس جدید ظریفانہ رنگ میں آپ کو بڑی جگر کاوی کرنا پڑی ہوگی۔ اس لئے کہ یہ رنگ ظرافت بالکل نیا ہے۔اقتباس بالا سے ناظرین کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ حضرت اکبر پولٹیکل نکات بھی کس خوبی اور مذاق کے پیرائے میں ادا فرماتے ہیں۔ آپ کے خیالات بالکل آزاد ہیں۔ ملکی معاملات میں بے جا جوش کو برا سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے خوشامد اور تملق سازی کی پالیسی بھی پسند نہیں فرماتے۔ بقول اپنے،میرے نزدیک یہ پنجاب کا بلوا بھی براساتھ ہی اس کے علی گڑھ کا حلوا بھی براآپ اظہار وفا کیجئے تمکین کے ساتھلیٹ جانا بھی برا ناز کا جلوا بھی برانہ نرے اونٹ ہو نہ ہو بلڈاگنہ تو مٹی ہی ہو نہ ہو تم آگچال ہے اعتدال کی اچھیساز حکمت کا جوڑہے یہ راگمگراس اعتدال پسندی کا یہ مطلب نہیں کہ صورت حال صحیح طورپر محسوس نہ کی جائے یا حقیقت سے آنکھ بند کرلی جائے۔ آپ نے کیا خوب کہا ہے،یہ بات غلط دار السلام ہے ہندیہ جھوٹ کہ ملک لچھمن ورام ہے ہندہم سب ہیں مطیع و خیر خواہ انگلشیورپ کے لئے بس ایک گودام ہے ہنددل اس بت فرنگ سے ملنے کی شکل کیامیری زبان اور ہے اس کی زبان اوربنگالی ہاتھ میں قلم لے تو کیامسلم جو مثال بزم جم لے تو کیاہندی کی نجات ہے نہایت مشکلسو مرتبہ مر کے وہ جنم لے تو کیایا اسٹیشن کے بدلے دودھ چائے اور کھانڈ لےیا ایجیٹیشن کے بدلے تو چلاجا مانڈلےبحث ملکی میں تو پڑنا ہے تری دیوانگیپالسی ان کی رہے قائم ہماری دل لگیدلچسپ ہوائیں سوئے گلشن پہنچیںزلفیں شملے سے تابہ دامن پہنچیںدرگا بائی سے راجہ جی جب روٹھےصدقے ہونے کو بی نصیبن پہنچیںآپ ہندو مسلمانوں کے اتفاق کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہیں اور اس پر نہایت لطیف اور مؤثر پیرائے میں جابجا زور دیتے اور افسوس کرتے ہیں کہ،وہ لطف آب ہندو ومسلماں میں کہاںاغیار ان پر گزرتے ہیں خندہ زناںجھگڑا کبھی گائے کا زباں کی کبھی بحثہے سخت مضر یہ نسخہ گاؤ زباںپھر کہتے ہیں کہ،ہندو و مسلم ایک ہیں دونوںیعنی یہ دونوں ایشیائی ہیںہم وطن ہم زبان و ہم قسمتکیوں نہ کہہ دوں کہ بھائی بھائی ہیںایک مدبر وقت کی حیثیت سے آپ باہمی جھگڑوں اور دونوں کی کمزوریوں کو سمجھتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آئے دن کی رقابتیں اور سرگوشیاں دلوں کو ایک دوسرے سے پھیر رہی ہیں۔ دونوں،چغلیاں اک دوسرے کی وقت پر جڑتے بھی ہیںناگہاں غصہ جو آ جاتا ہے لڑ پڑتے بھی ہیںہندو و مسلم ہیں پھر بھی ایک اور کہتے ہیں سچہیں نظر آپس کی ہم ملتے بھی ہیں لڑتے بھی ہیںکہتا ہوں میں ہندو و مسلماں سے یہیاپنی اپنی روش پہ تم نیک رہولاٹھی ہے ہوائے دہر پانی بن جاؤموجوں کی طرح لڑو مگر ایک رہوہزل چھوڑ کر دوسرے کے زٹل تک میں شریک ہو جانا چاہئے۔ اس میں یہ ضرور ہوگا کہ ’’نہ لاٹ صاحب خطاب دیں گے نہ راجہ جی سے ملے گا ہاتھی لیکن یہ تو کوئی نہ کہہ سکے گا تمہارے دشمن کہاں بغل میں۔‘‘ آپ سمجھتے ہیں اور کس خوبی سے اس کا اظہار کرتے ہیں کہ قوم اپنے ہی قوت بازو سے ابھر سکتی ہے۔ کیونکہ،دنیا میں ضرورت زور کی ہے اور آپ میں مطلق زور نہیںیہ صورت حال ہے قائم تو امن کی جا جز گور نہیںاے بھائیو بابو صاحب سے کھنچنے کا نہیں ہے کوئی محلگو نسل علاؤ الدین میں ہو مسکن تو تمہارے غور میںایک دوسرے پولٹیکل مسئلے کو کیسے شاعرانہ استعارات میں ادا فرمایا ہے،اونٹ نے گاؤں کی ضد پر شیر کو ساجھی کیاپھر تو مینڈک سے بھی بدتر سب نے پایا اونٹ کوجس پہ رکھا چاہتے ہو باقی اپنی دسترسمونہہ میں ہاتھی کے کبھی اے بھائی وہ گنا نہ دوملکی ترقی کی تمام معقول تحریکوں کے ساتھ آپ کو پوری ہمدردی ہے۔ آپ کے کلام میں ایسے اشعار اکثر ملتے ہیں جو ملکی کام کرنے والوں کے لئے چراغ ہدایت ہیں۔ قابل مضحکہ باتوں کا خاکہ اڑانے کے ساتھ ساتھ اچھی تحریکوں کی حمایت میں آپ دل بھی کس طرح بڑھاتے ہیں۔ تحریک سودیشی پر کیا خوب کہا ہے کہ،داخل مری دانست میں یہ کام ہے پن میںپہنچائے گا قوت شجر ملک کے بن میںتحریک سودیشی پہ مجھے وجد ہے اکبرؔ کیا خوب یہ نغمہ ہے چھڑا دیس کے دھن میںموجودہ تہذیب کے قابل مضحکہ پہلوؤں پر ہم حضرت اکبرؔ کے خیالات ظاہر کر چکے ہیں۔ فی زمانہ چندوں کی بھرمار اور عملی اور اصلی کام کی کمی اس نئی تہذیب کی ایک مضحکہ خیز شان ہے۔ روپیہ کا زور، روپیہ کا وقت بے وقت ذکر، اس کے وصول کرنے کی مختلف تدبیرں، غرض ان سب باتوں پر آپ نے خوب لے دے کی ہے۔ آپ بانیان علی گڑھ کالج کے دوستوں میں ہیں مگر کسی کے مقلد نہیں بلکہ بالکل آزاد خیال ہیں اور جس میں جو کمزوری دیکھتے ہیں اس طرح کہہ دیتے ہیں کہ کسی کو گراں نہ گزرے اور سب کے کام بھی ہو جائیں۔ علی گڑھ کالج کے نامور بانی کی آپ نے اکثر موقعوں پر نہایت گرم جوشی سے تعریف کی ہے۔ قابل گرفت باتوں پر مضحکہ بھی خوب اڑایا ہے۔ یہاں پر ہم صرف چند باتوں پر آپ کے ہنسا دینے والے ریمارک اور پھبتیاں ظیافت طبع کے لئے درج کرتے ہیں،کیجئے ثابت خوش اخلاقی سے اپنی خوبیاںیہ نمود جبہ و دستار رہنے دیجئےظالمانہ مشوروں میں میں نہیں ہوں گا شریکغیر ہی کو محرم اسرار رہنے دیجئےکھل گیا مجھ پر بہت ہیں آپ میرے خیرخواہخیر چندہ لیجئے طومار رہنے دیجئےاسیر دام زلف پالیسی مدت سے بندہ ہےفصاحت نذر لیکچر ہے ریاست نذرچندہ ہےجزیے کو سدھارے ہوئے مدت ہوئی اکبرؔالبتہ علی گڑھ کی لگی ایک یہ پخ ہےاب کہاں تک بت کدے میں صرف ایماں کیجئےتا کجا عشق بتان سست پیماں کیجئےہے یہی بہتر علی گڑھ جاکے سید سے کہوںمجھ سے چندہ لیجئے مجھ کو مسلماں کیجئےجیب خالی پھرا کیا بندہلے گئے احباب اس قدر چندہایمان بیچنے پر ہیں اب سب تلے ہوئےلیکن خرید ہو جو علی گڑھ کے بھاؤ سےشیخ صاحب چل بسے کالج کے لوگ ابھرے ہیں اب اونٹ رخصت ہوگئے پولو کے گھوڑے رہ گئےغرض کہاں تک انتخاب کیجئے۔ اس لسان العصر نے زندگی کے ہر پہلو پر غائر نظر ڈالی ہے اور مذاق مذاق میں سب کچھ دلنشیں کر دیا ہے۔ ذاتی حالات کی بھی کہیں کہیں جھلک مل جاتی ہے۔ حضرت اکبرؔ نے اپنے کلیات سے سوانح عمری کا کام نہیں کیا ہے۔ تاہم کہیں کہیں پر دلی جذبات کے ساتھ ایک آدھ ذاتی خیالات بھی شامل ہوگئے ہیں۔ کئی سال سے آپ کو آنکھوں کی سخت شکایت ہے،کونسل سے ہر طرح کا قانون آرہا ہےمطبع سے ہر طرح کا مضمون آرہا ہےلیکن پڑھوں میں کیوں کر آنکھوں کی ہے یہ حالتاشک آ رہے تھے پہلے اب خون آ رہا ہےبصارت نے کمی کی انحطاط عمر میں اکبرؔبصیرت ہے تو آنکھیں مجھ سے اب آنکھیں چراتی ہیںایک عرصہ دراز تک آپ کے صاحبزادے لندن میں اور آپ یہاں مدت مجوزہ کے بعد ان کی جلد واپسی کے لئے بے قرار تھے۔ اکثر مقامات پر یہ بے قراری ظاہر ہوگئی ہے،ہند میں ہوں مرا نور نظر لندن میں ہےسینہ پر غم ہے یہاں لخت جگر لندن میں ہےدفتر تدبیر تو کھولا گیا ہے ہند میںفیصلہ قسمت ہے اے اکبرؔ مگر لندن میں ہےاب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ آپ کا کلام بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے اور اس معیار شاعری پر جو آپ نے شعر ذیل میں مقرر کیا ہے پورا اترتا ہے۔