کہئے ایسی بات جو دل میں لگا دے آگ سی (ردیف .. ے)
کہئے ایسی بات جو دل میں لگا دے آگ سی
کیا بھلا ہوگا کسی کا داستان طور سے
قیصر و اسکندر اپنی قدردانی کر گئے
پوچھ لیتے قیمت اپنی کاش وہ جمہور سے
کیفیت نظارے کی ہے فاصلے پر منحصر
کیجئے نظارہ کچھ نزدیک سے کچھ دور سے
دختر حوا سے جو دیکھا سو دیکھا دیکھیے
رو پذیر اخلاق کیسے ہوں پری سے حور سے
کر سکا اصلاح عالم کب کوئی جادہ نما
جو بھی تبدیلی ہوئی ملت کے نار و نور سے
کر گیا دنیا میں بس وہ انقلاب انگیز کام
مل سکی فرصت جسے کچھ پیٹ کے تنور سے
جان بے چارے نے دی دنیا کو پہنچا خاک فیض
اور بھی بگڑا زمانہ دعوائے منصور سے
فائدہ انصاف کے آئین سے دیوانہؔ کیا
کچھ اگر امید ہے تو رحم کے دستور سے