بیٹھا ہوں سر راہ تماشائے رواں ہے

بیٹھا ہوں سر راہ تماشائے رواں ہے
سمٹا ہوا پیری کی نگاہوں میں جہاں ہے


پایا تجھے جس نے تجھے ہر چیز میں پایا
پانے کی یہی ایک دلیل ایک نشاں ہے


ہر وسعت کونین ہے اک آنکھ کے تل میں
اک حرف میں کن کے بہم اسباب فکاں ہے


اشراک میں اغراق میں ہیں آن و دوام ایک
ہے منجمد اک بحر تو اک سرو رواں ہے


اردوئے معلیٰ جسے کہتا ہے زمانہ
وہ ورثۂ اسلاف ہے وہ میری زباں ہے


اس شخص کی مٹھی میں ہے صد نوع کرامات
دیوانہؔ کہ ہے خندہ جبیں عذب بیاں ہے