کہاں تلاش کریں نقش آشیانہ کوئی

کہاں تلاش کریں نقش آشیانہ کوئی
یہ شہر جیسے بڑا سا ہے قید خانہ کوئی


سو اپنی ہجرت پیہم کا بس جواز ہے یہ
پرندے ڈھونڈتے رہتے ہیں آب و دانہ کوئی


مآل عشق پتہ ہے اسے مگر پھر بھی
تلاش لیتا ہے ہر بار دل بہانہ کوئی


عجب طلسم ہے جو وقت کھو گیا ہے کہیں
ہوا ہے لاد کے دن رات کو روانہ کوئی


کھلے ہیں پھول صبا چار سو ہے مہکی ہوئی
چمن سے گزرا تھا کیا حسن کافرانہ کوئی


کبھی تو حضرت ناصح بھی دل کشاد کریں
کبھی تو مشورہ دیں ہم کو مخلصانہ کوئی


عجیب لوگ ہیں نیندیں عجیب ہیں ان کی
جگا سکا نہ قمرؔ ان کو تازیانہ کوئی