کہاں کہاں تری رنگینئ شباب نہیں

کہاں کہاں تری رنگینئ شباب نہیں
مرا مذاق نظر پھر بھی کامیاب نہیں


کسی نظر میں تمہیں دیکھنے کی تاب نہیں
نقاب رخ بھی الٹ دو تو بے نقاب نہیں


وہ سن کے عرض تمنا کو ہو گئے خاموش
مرے سوال کا شاید کوئی جواب نہیں


کچھ اور مست نگاہوں سے دیکھ اے ساقی
بقدر ظرف ابھی نشۂ شراب نہیں


بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے ہیں یہاں
یہ امتحان کا اک دور ہے شباب نہیں


خموش بیٹھے ہیں جو پی چکے ہیں خم کے خم
بہک رہے ہیں جو آلودۂ شراب نہیں


تمہاری حسرت دیدار برقرار رہے
ہزار سال بھی گزریں تو کچھ حساب نہیں


لگی ہوئی ہیں تمہاری طرف مری آنکھیں
مری نظر میں زمانے کا انقلاب نہیں


کھلی ہوئی ترے آنے کے انتظار میں ہیں
خوشا نصیب وہ آنکھیں جو محو خواب نہیں


میں اپنے دوست سے کیا مجتنب ہوں اے شنکرؔ
مجھے تو اپنے عدو سے بھی اجتناب نہیں