بزم ہستی کو بصد حسرت تعمیر نہ دیکھ
بزم ہستی کو بصد حسرت تعمیر نہ دیکھ
شمع سے ربط بڑھا شمع کی تنویر نہ دیکھ
سوز فطرت کہیں کاغذ پہ اتر سکتا ہے
میرا دل دیکھنے والے مری تصویر نہ دیکھ
تیری شرمندہ نگاہی کی قسم ہے تجھ کو
کس کے سینے میں اترتی ہے یہ شمشیر نہ دیکھ
توڑ سکتا ہے طلسم سحر و شام جنوں
طوق گردن پہ نہ جا پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
بارے کام آ تو گیا خون تمنا اے دوست
مرا افسانہ مری شوخیٔ تحریر نہ دیکھ
چھوڑ جانا ہے تجھے نقش چمن میں اپنا
فکر انجام نہ کر حاصل تدبیر نہ دیکھ
تجھ کو فطرت کے تقاضوں کی خبر کیا زاہد
دیکھ رحمت کی نگاہیں مری تقصیر نہ دیکھ
دل کی ہر لغزش معصوم پہ سو خلد نثار
مستیٔ جرم سمجھ شورش تعزیر نہ دیکھ
دیکھ اس کو کہ جئے جاتا ہے ہنس ہنس کے ادیبؔ
مجھ سے پیش آتی ہے کیونکر مری تقدیر نہ دیکھ