کف قاتل میں خنجر جاگتا ہے
کف قاتل میں خنجر جاگتا ہے
بڑا پر کیف منظر جاگتا ہے
ادھر انگڑائیاں لیتی ہیں نیندیں
ادھر زخموں کا بستر جاگتا ہے
اٹھے ہے پہلے سینے میں دھواں سا
پھر آنکھوں میں سمندر جاگتا ہے
عجب ہے درد کو یادوں سے نسبت
کہ نغمہ جیسے لے پر جاگتا ہے
تمناؤں کا یہ انجام توبہ
لہو کا اک سمندر جاگتا ہے
یہ عالم تو نہ تھا درماں سے پہلے
کہ اب رگ رگ میں نشتر جاگتا ہے
تمہارے شعر بھی اسرارؔ کیا ہیں
بس اک لفظوں کا لشکر جاگتا ہے