کبھی تیرے خط کو جلا دیا کبھی نام لکھ کے مٹا دیا
کبھی تیرے خط کو جلا دیا کبھی نام لکھ کے مٹا دیا
یہ مری انا کا سوال تھا تجھے یاد کر کے بھلا دیا
نیا آرزو کا مزاج ہے نئے دور کی ہیں رفاقتیں
تری قربتوں کا جو زخم تھا تری دوریوں نے مٹا دیا
مجھے ہے خبر تجھے عشق تھا فقط اپنے عکس جمال سے
کہ میں گم ہوں تیرے وجود میں مجھے آئینہ سا بنا دیا
میں حصار میں تو حصار میں اسی سلسلے کو دوام ہے
کبھی مصلحت نے جدا کیا تو کبھی غرض نے ملا دیا
سبھی کہہ رہے ہیں یہ برملا جو گزر گیا وہی خوب تھا
ابھی ایک پل جو ہے آسرا اسے سب نے یوں ہی گنوا دیا
وہ شرر ہو یا کہ چراغ ہو ہے تپش مزاج میں اے حجابؔ
کبھی ہر نفس کو جلا دیا کبھی روشنی کو بڑھا دیا