کبھی خاک میں لاش ڈھک جائے گی
کبھی خاک میں لاش ڈھک جائے گی
اندھیرے میں ہڈی چمک جائے گی
مرا حشر یہ ہے کہ اک چھپکلی
مرے ذہن سے ہی چپک جائے گی
کوئی راہ پائے نہ پائے مگر
ہوا پانیوں کو تھپک جائے گی
نہ وہ مجھ سے اتنا قریب آئے گا
نہ میری صدا دور تک جائے گی
قدم جتنا آگے ہے پیچھے بھی ہے
خود اپنے ہی اندر سڑک جائے گی
خدا بن گئی ہے گڈریے کی سوچ
کوئی بھیڑ کیسے بھٹک جائے گی