کبھی کبھی وہی بانگ درا لگے ہے مجھے

کبھی کبھی وہی بانگ درا لگے ہے مجھے
کہ ٹوٹتی سی جو دل کی صدا لگے ہے مجھے


مرا خلوص مجھے لے کے آ گیا ہے کہاں
وہ ہنس کے گالیاں دے تو دعا لگے ہے مجھے


نہ آیا حرف شکایت مرے لبوں پہ مگر
یہ بات سچ ہے کہ وہ بے وفا لگے ہے مجھے


جزا کی فکر ہو کیوں مجھ کو بزم ہستی میں
مرا وجود ہی جب اک سزا لگے ہے مجھے


میں اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا انورؔ
کسی حسین کی یہ بد دعا لگے ہے مجھے