اپنی دنیا کو لٹا کر دیکھو

اپنی دنیا کو لٹا کر دیکھو
یوں دل و ذہن پہ چھا کر دیکھو


لوٹ آیا ہے صبح کا بھولا
تم اسے شمع جلا کر دیکھو


دل کی دھڑکن میں صدا ہے کس کی
اپنے سینے سے لگا کر دیکھو


گہرے پانی میں ملے گا موتی
اک ذرا غوطہ لگا کر دیکھو


میں کوئی غیر نہیں ہوں تو مجھے
کبھی آنکھوں میں بسا کر دیکھو


ہے کھڑا سامنے کب سے انورؔ
اپنی پلکیں تو اٹھا کر دیکھو