کب زلف دوتا ان کی پریشان نہیں ہے

کب زلف دوتا ان کی پریشان نہیں ہے
کب وحشت دل کا مری سامان نہیں ہے


یادوں کو لگائے ہوئے سینے سے گزر جا
یہ راہ محبت ہے کچھ آسان نہیں ہے


دنیا میں مجھے دولت جاوید ہے حاصل
کیا دل میں مرے آپ کا ارمان نہیں ہے


اے بادہ کشو ظرف کی کچھ بات کرو آج
ساقی کا یہاں عام اب احسان نہیں ہے


کیا پوچھتے ہو تمکنت حسن کا عالم
اب جیسے کرم کا کوئی امکان نہیں ہے


کچھ روز سے ہر نیشتر غم ہے گوارا
کیا یہ نگہ مست کا احسان نہیں ہے


ارمان امنگ حوصلہ امید بھی اس میں
کاشانۂ دل دوستو ویران نہیں ہے


یوں ملتے ہیں مجھ سے وہ سر بزم جمالیؔ
جیسے مری ان سے کوئی پہچان نہیں ہے