کب ملا کوئی رہبر ترے گاؤں میں

کب ملا کوئی رہبر ترے گاؤں میں
خوب بھٹکے ہیں در در ترے گاؤں میں


ظلم سہہ کر بھی تیری تمنا کرے
ہے کوئی ہم سا دلبر ترے گاؤں میں


آدمی اور حیوان کے روپ میں
یہ بھی دیکھا ہے منظر ترے گاؤں میں


یہ ہمارا ہی دل ہے کہ ہنستا رہا
چوٹ پر چوٹ کھا کر ترے گاؤں میں


کون دکھڑا سنے کون کھائے ترس
دل سبھی کا ہے پتھر ترے گاؤں میں


کون دل کو بچا کر چلے کس طرح
ہر قدم پر ستم گر ترے گاؤں میں


رازؔ اپنے سخن پر تو نازاں نہ ہو
اور بھی ہیں سخن ور ترے گاؤں میں