کاش

کاش میں ایک بانسری ہوتا
اپنے ہونٹوں پہ لے کے کوئی مجھے
میرے دل کی چھپی ہوئی آواز
ساری دنیا میں منتشر کرتا
اور پھر گیت میں بدل جاتے
میری معصوم زندگی کے خواب
کاش ہوتا میں عرش کا مہتاب
اپنی ہی روشنی کے زینے سے
ہولے ہولے زمیں پہ آ جاتا
پھر زمیں کی بہار میں کھو کر
کسی بچے کے ساتھ مل جاتا
اور وہ بچہ گلے لگا کے مجھے
مسکرا کر خوشی سے یہ کہتا
ارے تم تو مرے ہی بھائی ہو
کس طرف کھو گئے تھے بتلاؤ
کاش ہوتا میں اک شگفتہ گلاب
اور شاخوں سے اڑ کے تھوڑی دیر
کسی مفلس اداس ماں کے قریب
اس کے آنگن میں جا کے یہ کہتا
ماں بڑی دیر سے اداس ہو کیوں
میں تمہارے ہی دل کا ٹکڑا ہوں
مجھ کو اپنے گلے لگا لو ذرا
اور مری بات پر وہ مفلس ماں
غم اولاد بھول کر مجھ کو
چوم لیتی گلے لگا لیتی