کاسۂ دل جو ٹوٹ جائے گا

کاسۂ دل جو ٹوٹ جائے گا
پھر یہ سائل نظر نہ آئے گا


تو تو خوددار ہے کسی در پر
کیسے دست طلب بڑھائے گا


آندھیوں میں دئے جلانے سے
راہبر راہ بھول جائے گا


ٹمٹماتا ہوا ہر اک تارا
شمع امید کی جلائے گا


ناامیدی ہی جب مقدر ہے
کیسے تقدیر آزمائے گا


دیکھ کر آسماں جو چلتا ہے
وہ بھی ٹھوکر ضرور کھائے گا


جس نے دھوکے بہار سے کھائے
وہ خزاں کو گلے لگائے گا


منزلوں کا خیال سیلانیؔ
اک نیا راستہ دکھائے گا