یہ حقیقت ہے کہ ہر راہ گزر سے پہلے

یہ حقیقت ہے کہ ہر راہ گزر سے پہلے
منزلیں ڈھونڈھتی آئی ہیں سفر سے پہلے


اپنا انجام بھی سوچا ہے کبھی ماہ جبیں
پھول جھڑ جائیں گے شاخوں پہ ثمر سے پہلے


کیا خبر تھی کہ ترے بعد یہ حالت ہوگی
شام کترائے گی آنے کو سحر سے پہلے


اپنے قدموں سے یہ افلاک ہوئے ہیں روشن
ہم ہی پہنچے ہیں وہاں شمس و قمر سے پہلے


کیا پتا تھا کہ تری یاد میں روتے روتے
دل کا ہو جائے گا سب کام جگر سے پہلے


ان کو آئینہ اٹھانے میں بھی آتا ہے حجاب
جانتے کیا تھے وہ آداب نظر سے پہلے


دل ہے امیدوں کا اک شہر خموشاں اے دوست
زیست ویران تھی یادوں کے نگر سے پہلے