ہم تو اک گرتی ہوئی دیوار ہیں
ہم تو اک گرتی ہوئی دیوار ہیں
آپ کے رحم و کرم پر بار ہیں
ہر قدم پر ہیں صلیبیں دار ہیں
زندگی کے راستے پر خار ہیں
آج تک پیتے رہے ہیں اشک غم
زہر بھی پینے کو اب تیار ہیں
پائیں گے سایہ بھی اک دن دھوپ میں
وقت کے گیسو اگر خم دار ہیں
یار تو خاموش ہیں مدت ہوئی
اب کرم فرما فقط اغیار ہیں
کون پوچھے گا ہمیں اب وقت کے
ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار ہیں
آپ کیا دیں گے محبت کا پیام
آپ تو خود برسر پیکار ہیں
جس میں سیلانیؔ نہیں داد سخن
ہم سبھی اس دور کے فن کار ہیں