شمس و قمر سے اور کبھی کہکشاں سے ہم
شمس و قمر سے اور کبھی کہکشاں سے ہم
گزرے ہیں لاکھ بار حد لا مکاں سے ہم
رہبر ترے کرم سے ہو اس کارواں کی خیر
اب تک وہیں کھڑے ہیں چلے تھے جہاں سے ہم
ماضی کی تلخیوں میں رہے مطمئن مگر
کیوں خوش نہیں ہیں دوستو سال رواں سے ہم
جوش جنوں میں آج ہیں ہم کس مقام پر
یہ بھی پتہ نہیں ہے چلے تھے کہاں سے ہم
ان کے کرم ستم سے بھی کچھ کم نہیں ہیں اب
سیلانیؔ کس طرح کہیں اپنی زباں سے ہم