کاجل بھرا ہے نین میں اور منہ میں پان بھی

کاجل بھرا ہے نین میں اور منہ میں پان بھی
ملتا نہیں ہے روپ کا لیکن نشان بھی


اب کیا کہیں وہ جھانکنے والے نہیں رہے
نٹکھٹ گلی وہی ہے اور بانکا مکان بھی


دل کی پرانی بانسری لے کر کہیں چلیں
ترکش کے ساتھ توڑ دیں تیر و کمان بھی


اس تنگ دل سے شہر میں کیا سوچ کے بسے
آنگن گیا تھا ساتھ میں کھویا ہے لان بھی


جنگل کے باسیوں کے سبھی جال کاٹ دیں
پھینکے اڑا کے آندھیاں اونچے مچان بھی


چھوٹے سے دل کا اور تھا اک پاؤں تیسرا
دینے کو دے دئے تھے اسے دو جہان بھی


ان کی غزل کا کیا کہیں جادو چراغ ہے
رہنے کو یہ مکان ہے گھر کی دکان بھی