آنے والی صدی کے لگتے ہیں

آنے والی صدی کے لگتے ہیں
پنکھ اجلے پری کے لگتے ہیں


بعد مدت کے شہر کی چھت پر
کچھ ستارے خوشی کے لگتے ہیں


ڈوبی کشتی کے تیرتے چپو
حوصلے زندگی کے لگتے ہیں


ہاتھ خونی کسی درندے کے
پاؤں تو آدمی کے لگتے ہیں


کوئی چہرہ بھی چھو نہیں پاتے
عکس سب آرسی کے لگتے ہیں


یوں اترتی ہیں دل میں وہ نظریں
بول سے خامشی کے لگتے ہیں


ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھی شام
رنگ یہ بے بسی کے لگتے ہیں