جو پروانے کے قبضے میں دل مستانہ ہو جائے
جو پروانے کے قبضے میں دل مستانہ ہو جائے
بہ زور جذب فطری شمع خود پروانہ ہو جائے
مری اجڑی ہوئی محفل میں تم اک بار آ جاؤ
ابھی دیر و حرم میں خاک اڑے ویرانہ ہو جائے
نہ آنا ہاں نہ آنا تم وہیں رہنا وہیں رہنا
کہیں بیمار ہجراں دید سے اچھا نہ ہو جائے
نہ پوچھو حال دل امید بندھ کے ٹوٹ جاتی ہے
یگانہ بن کے پھر کوئی اگر بیگانہ ہو جائے
تمہیں ہے اختیار آباد یا برباد کر ڈالو
بہر صورت مکمل اب مرا افسانہ ہو جائے
یہ خودداری کی دولت جس کو مل جائے زمانے میں
خودی بھولے وہ ہست و بود سے بیگانہ ہو جائے
مرا دل توڑ کر برباد کرتے تو ہیں وہ عالمؔ
یہ مشت خاک مٹ کر اک نئی دنیا نہ ہو جائے