جو مثل تیر چلا تھا کمان سا خم ہے
جو مثل تیر چلا تھا کمان سا خم ہے
نگاہ دوست میں تاثیر اسم اعظم ہے
خوشا کہ وہ ہیں مرے رو بہ رو بہ نفس نفیس
زہے کہ آج مری آرزو مجسم ہے
محیط حسن کراں تا کراں نہیں نہ سہی
بساط شیشۂ دل جس قدر ہے تاہم ہے
انا پسند انا کے نشے میں بھول گئے
یہ شہد وہ ہے کہ جس کے خمیر میں سم ہے
ہوا سے کرتا ہے باتیں تری مہک پا کر
ترے غزال جنوں میں بلا کا دم خم ہے
یہ رنگ و نور یہ خوشبو یہ کیف سامانی
حریم ناز ہے یا عالموں کا عالم ہے
نہ جا تبسم لب ہائے خشک پر اے دوست
ہنسی نہیں یہ ترقی پسند ماتم ہے
تو کیا چراغ تمنا کا میں محافظ ہوں
جب ان کو فکر نہیں ہے یہیں کسے غم ہے
مرا مزاج ہے یاروں پہ وار دوں خود کو
مرا وجود بھی انگشتری کا نیلم ہے
دھواں دھواں نظر آتی ہے بزم فن غوثیؔ
یہاں چراغ زیادہ ہیں روشنی کم ہے