جو مانگو وہ کب ملتا ہے

جو مانگو وہ کب ملتا ہے
اب کے ہم نے دکھ مانگا ہے


گھر میں حال بزرگوں کا اب
پیتل کے برتن جیسا ہے


ناتی پوتوں نے ضد کی تو
اما کا صندوق کھلا ہے


ہاتھ سے اس نے دی تھیں گانٹھیں
اب دانتوں سے کھول رہا ہے


اب تم راکھ اٹھا کر دیکھو
کیا کیا جسم کے ساتھ جلا ہے


دور وسو یا پاس رہو اب
رشتوں کا پل ٹوٹ چکا ہے


دوب چمکتی ہے کھیتوں میں
برگد چنتا میں ڈوبا ہے


روتی آنکھیں ہنستا چہرہ
انگاروں پر پھول کھلا ہے


آنکھوں سے ہے اوجھل منزل
پیروں سے رستہ لپٹا ہے


ڈوب رہی دو آنکھیں ہیں اور
بجھتی سی فانی دنیا ہے


کہرے میں لپٹی ہے بستی
سورج بھی جگنو لگتا ہے


یاد خیالؔ آئی پھر اس کی
آنکھوں سے آنسو ٹپکا ہے